اکائی
copied
کافی کا کپ
(میرے والدین اور شریک حیات کے نام)
وہ کوئٹہ کی کڑاکے دار سردیوں کا ایک روز تھا۔ گھر کے صحن میں شام کے اندھیرے اتر چکے تھے۔ اتفاق سے ابو کی گھر جلدی واپسی ہو گئی تھی اور ہم چھ نفوس گھر کی واحد انگیٹھی کے گرد دائرہ بناۓ بیٹھے تھے ۔ ایسے میں بڑی بہن نے امی سے کافی کی فرمائش کر ڈالی۔ مخاطب امی یوں تھیں کہ ابو کو گھر آے کچھ ہی دیر ہوئی تھی اور انکو تنگ کرنا مقصود نہ تھا ورنہ ہمارے گھر کے کافی اسپیشلسٹ وہی تھے۔ مگر پھر ہم نے دیکھا کہ امی ابو کے درمیان آنکھوں میں خفیف اشاروں اور زیر لب مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا اور امی نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔ "مجھے کافی بنانی نہیں آتی" ۔ اور چند ہی لمحوں میں ابو کچن میں تھے جہاں سے کپ اور چمچ کی جلترنگ بلند ہو رہی تھی۔
ہمارے ہاں کافی کو مشروب نہیں بلکہ ایک فریضے کا درجہ حاصل تھا، ایک ایسا فریضہ جو صرف سردیوں میں بصد اہتمام سرانجام دیا جاتا تھا۔ ایک کپ میں کافی چینی اور تھوڑا سا گرم پانی ڈال کر اتنا پھینٹا جاتا کہ اسکا رنگ بدل جاتا۔ اس دوران ایک پتیلی میں دودھ گرم ہوتا رہتا۔ آخر میں کافی کے ملغوبے کو سب کے کپوں میں تقسیم کرکے دودھ ڈالا جاتا اور پھر ہماری چھوٹی سی پارٹی شروع ہوجاتی۔ بس ہمیشہ یہ الجھن رہ جاتی کہ آخر آج تک امی کو یہ آسان سی ترکیب کیوں سمجھ نہیں آ پائی ۔ نہ کبھی وہ سمجھیں اور نہ ہی ابو نے سکھانے کی کوشش کی۔ بس وہی ناقابل فہم اشارے ہوئے اور ابو یکایک کمربستہ ہو گئے ۔
یہ کہانی یہاں موقوف نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں کڑاہی گوشت بھی ابو کے نام سے مخصوص تھا۔ ہم بہن بھائی ہمیشہ حیران ہوتے کہ وہی امی جو اتنی مشکل ڈشز چٹکیوں میں بنا لیتی ہیں آخر ان دو چیزوں پر آ کر کیوں ہار مان لیتی ہیں۔ اور تو اور ابو بھی ہمیشہ انکے لئے تیار رہتے۔ مجال ہے کبھی ماتھے پر ایک شکن بھی لاۓ ہوں۔ مگر ہم عمر کے اس حصے میں تھے جہاں ایسی سب سوچ بچار وقتی ہوتی ہے۔ بس دیکھا اور پھر بھول بھال کر اپنی دنیا میں مگن ہو گئے ۔
مزے کی بات یہ تھی کہ اشاروں کا تبادلہ محض یک طرفہ نہ تھا۔ اکثر چیزوں میں محو سخن امی بھی ہوتی تھیں۔ ہماری امی اس زمانے کی روایت کے مطابق واجبی سی تعلیم یافتہ تھیں۔ کل آٹھ جماعتیں اور وہ بھی سرکاری اسکول سے۔ انگریزی سے تقریباً نابلد تھیں۔ مگر گھریلو معاملات میں طاق تھیں اور ہم سب کی پرورش پر انکی خصوصی توجہ ہوتی تھی۔ انکے برعکس ابو انجینرنگ گریجویٹ ہونے کے ساتھ اعلی عہدے پر فائز تھے۔ مگر موجودہ زمانے کے برعکس یہ فرق کبھی بھی انکے درمیان سماجی ناہمواری کا سبب نہیں بن پایا۔ شاید اس وقت تک ہمارا ملک اس معراج تک نہیں پہنچ پایا تھا۔
اب مثال کے طور پر کتابیں کاپیاں کور کرنے کا فریضہ دیکھ لیں۔ ہمارے زمانے میں یہ کسی تقریب سے کم نہیں ہوتا تھا۔ ایک تہہ براؤن پیپر اور پھر نام لکھنے کے بعد ایک مزید تہہ پلاسٹک شیٹ کی۔ کہنے کو یہ ایک سیدھا سادہ سا کام تھا مگر نجانے اپنے دفتر میں اتنی مشکل گتھیاں سلجھانے والے ابو کبھی سمجھ نہ سکے۔ مجال ہے کبھی بھی یہ امی کے بنا حل ہوا ہو۔ اسی طرح ہمارے اسلامیات اور معاشرتی علوم کے نوٹس ایک زمانے تک امی ہی بناتی رہیں۔ کبھی ایک کتاب اور کبھی دوسری میں گھسی گھنٹوں کاپی پر لفظ گھسیٹتی رہتیں ۔ اب نجانے یہاں ابو کی ساری ڈگریاں کیوں ناکام ہو جاتی تھیں۔
خیر وقت گزرتا گیا اور ہم بڑے اور خود مختار ہوتے گئے۔ امی ابو کا ہماری زندگی میں عمل دخل کم ہوتا چلا گیا ۔ پھر نوکریاں ، شادی اور بچے اور ان سے جڑی ذمہ داریاں بڑھتی گئیں ۔ تب تک یا تو امی ابو کے خفیف اشاروں کا ذخیرہ ختم ہو چلا تھا یا شاید ہمارے پاس انکو کھوجنے کی فرصت نہ رہی تھی۔ پھر یکے بدیگرے امی اور ابو اجل کے پروں پر سوار راہی عدم ہوئے۔ چند روز تو انکے غم میں گزرے اور پھر بچوں کی فیسوں اور گھر کے خرچوں کے پہیے میں مگن شاید ہم بھی انہیں اور ان سے جڑی انسیت کو فراموش کرتے چلے گئے ۔
اسی طرح پلک جھپکتے کئی سال گزر گئے۔ میں ترقی کرتا کرتا ایک اعلی عہدے پر پہنچ گیا اور میری بیوی بچوں کی تربیت میں مگن کل وقتی گھر کی اسیر ہو کر رہ گئی ۔ میں کمپنی کے کاموں کیلئے اکثر و بیشتر مختلف شہروں میں سفر کرتا رہتا۔ زندگی مصروف تر ہوتی چلی گئی ۔
وہ غالباً ایک اتوار تھا۔ میں پچھلی رات کو ہی اسلام آباد کے تین روزہ دورے سے واپس پہنچا تھا۔ صبح ناشتے کیلئے میری بیٹی نے چیز آملیٹ کی فرمائش کر دی۔ عموماً ایسی فرمائشوں کا محور میری بیوی ہی ہوتی تھی جس نے اپنے شوق میں نجانے سینکڑوں دیسی بدیسی کھانوں میں مہارت حاصل کر رکھی تھی۔ مگر توقع کے برعکس اس نے مسکرا کر کن انکھیوں سے میری جانب دیکھ کر فقط اتنا کہا "مجھے بنانا نہیں آتا۔"
اور یہی وہ لمحاتی ادراک تھا جو مجھے لاشعوری طور پر یکایک سالوں پیچھے لے گیا۔ بس میں تھا اور کوئٹہ کا وہ گھر جہاں کچن سے کافی کے کپ اور چمچ کی دھیمی دھیمی جلترنگ ابھر رہی تھی۔ آج ناشتے کی میز پر چالیس سال پرانی گرہیں دھیرے دھیرے کھل رہی تھیں۔
یہ کافی کے کپ، کتابوں کے خاکی کور اور آملیٹ ہماری تخلیق اور تربیت کے عمل سے گزرنے والے ماں باپ کیلئے کچھ معنی نہیں رکھتے۔ یہ محض رفاقت کے استعارے ہیں جن سے وہ مل جل کر اپنی اولاد کی شخصی تعمیر کرتے ہیں ۔ وہ چھوٹی چھوٹی بنیادی اکائیاں جن میں ان دونوں کی چھاپ زندگی بھر انکی اولاد میں جھلملاتی رہتی ہے ۔ ماں ہو یا باپ، اولاد کو تراشنے کا عمل دونوں کے بنا ادھورا ہی رہتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور چیزوں میں ایک دوسرے کو سبقت دینے میں ہی زندگی کا توازن ہے۔
یہی سب سوچتا ہوا میں اٹھ کھڑا ہوا اور نم آنکھوں کے ساتھ کچن کی جانب چل دیا جہاں چولہے پر فرائنگ پین میرا منتظر تھا۔ محبت کی ایک اور اکائی رکھنے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔✨
Comments
Post a Comment