عامر خاکوانی کی تحریر - کتاب اور ادیب

رائٹر کے لئے کتاب چھپوانے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ایک اہم سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوتا ہے ۔
  وہ یہ کہ جو دوست، جان پہچان والے یا دیگر احباب مفت کتاب کی توقع کر رہے ہیں، ان کے ساتھ کیسے ڈیل کرے۔
 یہ ویسے عجیب وغریب معاملہ ہے۔ فیس بک پوسٹوں کی الگ بات ہے ، لیکن کسی اخبار یا موقر ویب سائٹ وغیرہ کے لئے لکھنا پڑے تو عام طور پر اکثر لکھنے والے ایک آدھ مضمون لکھ کر ہانپنے لگتے ہیں۔ 
  ایسے میں جو لکھنے والا کئی برسوں کی محنت شاقہ سے لکھے، پھر اپنی منتخب تحریروں کو دوبارہ سے کانٹ چھانٹ کے عمل سے گزارے، کچھ غیر مطبوعہ تحریریں بھی شامل کریں، دن رات کی محنت کر کے ایک اچھی کتاب بنانے کی کوشش کرے۔ 
   جب وہ کتاب چھپ جائے تو یار لوگ اس غیر معمولی محنت کو سراہنے کے بجائے یا تو لفظی مبارک باد دے دیں گے یا پھر منہ کھول کر مٹھائی کھلانے کا مطالبہ کریں گے۔ 
 مٹھائی؟ وہ کیوں؟ ایک بے تکلف دوست نے مجھے یہ کہا تو ازراہ مذاح سرائیکی کا جملہ دہرا ڈالا، کیوں اساں پتر پرنائے کیا؟(کیوں بیٹے کی شادی کی ہے کیا؟)۔ 
  او بھائی مٹھائی تو آپ لوگ کھلائیں، رائٹر کی دعوت کریں، اس کی سیوا کریں ، اس کا اکرام کریں کہ اس نے اتنی محنت کرکے آپ لوگوں کی ضیافت طبع کے لئے اپنی کتاب شائع کرائی۔ یہ اس کا پڑھنے والوں پر احسان ہے، قارئین کا رائٹر پر احسان نہیں۔ اگر کتاب اچھی لگے گی تو ہی وہ خریدیں گے ورنہ بیکار کتاب کون خریدتا ہے۔ 
   اس لئے میرے خیال میں رائٹر ہونا بذات خود ایک اعزاز ، ایک بڑا منصب ہے، ایک سنگھاسن پر بیٹھنے کے برابر ہے۔ ان کا اکرام بنتا ہے، ان سے مطالبہ نہیں۔ 
   
   فیض اللہ خان ہمارے بہت پیارے دوست ہیں،محنتی صحافی اور اچھے لکھاری ہیں۔ چند سال پہلے وہ ایک انٹڑویو کے سلسلے میں افغانستان گئے اور وہاں چند ماہ اسیر رہے، اس پر انہوں نے بڑی شاندار کتاب لکھی۔ اس کے ایک سے زائد ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔ 
  فیض اللہ کی جب کتاب چھپی تو انہوں نے ایک پوسٹ کی جس سے کم از کم میں بہت انسپائر ہوا اور اپنی حد تک ایک دو بار ایسا کرنے کی کوشش بھی کی۔ 
 فیض اللہ نے بتایا کہ ان کی کتاب چھپنے کی اطلاع ان کے قابل احترام سینئر زبیر منصوری صاحب کو ملی تو انہوں نے ملنے کے لئے بلایا، چند اور دوست بھی مدعو تھے۔ زبیر منصوری جمعیت کے ذمہ دار رہے ہیں، قاضی حسین احمد کے سیکرٹری بھی رہے، بہت اچھا لکھنے والےہیں اور بڑے ممتاز ٹرینر ہیں، بے شمار نوجوان ان کے شاگرد اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ 
 منصوری صاحب نے فیض اللہ خان کی کتاب کو سراہا اور کہا کہ میں اس کی ایک کتاب کی قیمت دس ہزار مقرر کرتا ہوں(کتاب تب پانچ سات سو روپے کی چھپی تھی)۔ منصوری صاحب نے سب سے پہلے اپنی جیب سے دس ہزار نکال کر مصنف کے حوالے کئے اور ایک کتاب لے لی، ان کی ترغیب اور ان کی انسپائریشن سے دس گیارہ دیگر دوستوں نے بھی ایسا کیا۔ منصوری صاحب نے وہ پیسے اکھٹے کئے اور فیض اللہ کو پکڑا دئیے کہ یہ لو۔ وہ جانتے تھے کہ آج کل کتابوں کی رائلٹی کتنی ایک ہوسکتی ہے ؟ اور مصنف کو کتاب لکھنے کی محنت پر کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ اپنے ایک جونئیر کی محنت شاقہ کو سراہنے کا بہت اچھا اور قابل تقلید طریقہ انہوں نےسوچا۔ 
  یہ پوسٹ پڑھ کر دم بخود رہ گیا۔ یہی سوچا کہ ہمیں کیوں اس کا خیال کبھی نہیں اایا۔ پھر ایک دو بار خود بھی اسے دہرایا۔ ایک دوست اپنی کتاب خود چھپوا رہے تھے تو انہیں ازخود کہا کہ چھپنے کے بعد آپ کی دس کتابیں خریدوں گا، پیسے ایڈوانس پکڑ لیں۔ بعد میں ظاہر ہے ایک کتاب ہی ان سے لی۔ 
  یہ سب بتانے کا مقصد اپنی تعریف یا کسی اور کی تشہیر نہیں ، بلکہ یہ آج مجھے ایک اور محترم پیارے دوست کی وجہ سے یاد آیا۔ 
  آج ان کا فون آیا،کتاب کی مبارکباد دی اور پھر کہنے لگے کہ میں کتاب میلہ سے پانچ کتابیں اپنے لئے خریدوں گا اور دس کتابیں خرید کر آپ کو دے دوں گا تاکہ کہیں اخبار کے تبصرے وغیرہ کے لئے یا  جہاں نہایت ضروری ہے ، وہاں بانٹ دیجئے ۔
  مجھے خوشی ہوئی کہ چلو کہیں تو ایسے لوگ موجود ہیں۔ 
  اب عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم تھوڑے بہت سینئر ہوگئے ہیں ، نوجوان لکھنے والے کچھ خیال کر لیتے ہیں تو ہمیں کتاب تحفہ میں بھیج دیتے ہیں، ورنہ میرا اپنا یہ طریقہ ہمیشہ یہی رہا کہ کتاب خرید کر پڑھی جائے۔ 
  کل کتاب میلہ میں تھوڑی دیر کے لئے گیا، مگر وہاں بھی انجمن ترقی اردو اور نیشنل بک فائونڈیشن کے سٹالز سے ایک ایک کتاب خریدی۔ انذار کے سٹال کا جائزہ لیا۔ ابو یحییٰ سے میرا بھائیوں جیسا تعلق ہے، وہ اپنی کتابیں بھیجتے رہتے ہیں، مگر سوچا کہ ان کی تازہ کتاب خاموشی سے ان کے سٹال سے خرید لوں گا۔ یہی دوسروں کے لئے بھی کیا کرتا ہوں۔ 
   اس پوری پوسٹ کا نچوڑ یہی ہے کہ رائٹر کا کتاب لکھ دینا بذات خود بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے، اس سے مزید کی توقع نہ کریں اور نہ ہی مفت کتاب کا مطالبہ کریں۔ بلکہ کتابیں خریدیں، خرید کر دوسروں کو دیں۔ انہیں پھیلانے میں حصہ ڈالیں۔ اگر کتاب نہیں خرید سکتے تو کوئی بات نہیں، ہر چیز مالی وسائل سے نہیں ہوتی۔ آپ اپنی پسندیدہ کتاب یا پسندیدہ لکھاری کی کتاب کی تشہیر تو کر سکتے ہیں۔ اس پر پوسٹ لکھیں، کتاب کی تصویر لگائیں، کوئی پوسٹ شیئر کر دیں۔ کتاب میلہ پر پوسٹ لگائیں تاکہ مزید لوگ اس جانب متوجہ ہوں۔ یاد رکھیں کہ سماج میں تبدیلی کتابوں ہی سے آتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Dr Ashraf Iqbal geogebra letter

چکوال ڈاکٹر محسن منہاس