پلکشا یونیورسٹی کاروبار کے لئے
*کیا ہم بھی اس سمت میں کبھی قدم اٹھا پائیں گے۔؟*
پلکشا یونیورسٹی کا قیام اور ہماری یونیورسٹیاں بدنام! کیوں؟
2021ء میں ہندوستان میں پہلی اور سب سے بڑی “کاروباری یونیورسٹی” کا آغاز ہوچکا ہے۔ 2015ء میں ہندوستان کے 45 بڑے کاروباری دماغ سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے سوچا کہ اگر ہم نے آج ہیومن ریسورس پر سرمایہ کاری نہ کی تو کل کو ہمارا ملک اور کاروبار دونوں تباہ ہو جائیں گے۔
ان تمام تاجر حضرات نے اپنی زندگی کی سب سے بہترین سرمایہ کاری کا آغاز کیا اور دو ہزار کروڑ روپے سے پنجاب کے شہر 'موہالی' میں “پلکشا” یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ اس یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کا کام نوکری کا حصول نہیں بلکہ نئے اور اچھوتے بزنسس کا آغاز کرنا ہے۔ اس کا سنگ بنیاد رکھنے والے چاہتے ہیں کہ 2031ء تک پورے ہندوستان میں کم از کم دس ہزار نئے اسٹارٹ اپس startups شروع کیے جائیں اور ایسا کرنے والے “پلکشا” یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلم ہوں۔
یہ اس روایتی تعلیم اور تعلیمی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو نوجوانوں کو غلامی اور نوکری کے لئے تیار کرتا ہے پوری دنیا میں ایم- بی- اے تک میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ دوسروں کی غلامی آپ کیسے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں، لیکن اپنا بزنس کیسے چلانا اور کامیاب کرنا ہے اس معاملے میں پورا نظام تعلیم سرے سے خاموش ہے۔
اُن 45 چیف ایگزیکٹیوز نے طے کر رکھا ہے کہ وہ دنیا کے بہترین دماغوں کو اس یونیورسٹی میں لے کر آئیں گے۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایم- آئی -ٹی، برکلی ، پنسلوانیا اور پرڈیو یونیورسٹیز سے معاہدے کر لیے ہیں جب کہ گوگل اور آئی- بی-ایم” پلکشا” کو آئی -ٹی سپورٹ فراہم کریں گے۔ 2014ء میں نریندر مودی کے”ڈیجیٹل انڈیا” کے نعرے کے بعد پورے ہندوستان میں اس پر سوچ بچار کرنے والوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے، ہندوستان کم عمر اور بڑی تعداد میں نئے نئے کاروبار اور اسٹارٹپس لینے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔
1985ء میں پیدا ہونے والے بھویش اگروال نے “اولا OLA CABS ” کے نام سے ٹیکسی سروس شروع کردی۔ بھویش کے پاس اپنی ایک بھی ذاتی گاڑی نہیں ہے، جبکہ ان کے سسٹم میں دس لاکھ سے زیادہ گاڑیاں موجود ہیں جو 169 ہندوستانی شہروں میں رواں دواں ہیں۔ اس کے مقابلے میں اوبر جیسی کمپنی صرف 38 شہروں میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ دہلی کی حکومت عام عوام پارٹی کے پاس ہے۔ انہوں نے ہائی سکول کے بچوں کو آسان قرضے فراہم کئے اور سکوں کے بچوں نے کامیاب سٹارٹ اپس startups چلا کر دنیا کو حیران کردیا ہے۔
18 سال کی عمر میں “اویو OYO ROOMS” کے نام سے پارٹنرشپ میں ہوٹل شروع کرنے والے رتیش اگروال اب تک دنیا کے 12 ملکوں کے 500 شہروں میں 33 ہزار کمروں کے ساتھ دنیا کی کسی بھی بڑی سے بڑی ہوٹل چین سے بہت آگے ہیں۔ ہندوستان دن بدن سرمایہ کاروں کی جنت بنتا جارہا ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام بدقسمتی سے تین قسم کے “مائنڈ سیٹس” پیدا کر رہا ہے۔ ایک وہ مائنڈ سیٹ ہے جو اپنا پیٹ پالنے کے لیے پڑھ رہا ہے یہ “آرڈینری انکم” کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں، ان کو 9 سے 5 کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ ان بیچاروں کا اپنی صلاحیتوں، بے پناہ خوبیوں اور اپنی استعداد کار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ جیتے ہیں تو نوکری کی حسرت کے لئے اور زندہ رہتے ہیں تو غلامی کے لیے۔
دوسرا مائنڈ سیٹ ہے جو “پورٹ فولیو انکم” کے لئے تیار ہو رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر بن کر نوٹ چھاپنا چاہتے ہیں یا وکیل بن کر “بکنا” چاہتے ہیں یا پھر اپنی کوئی دکان لگا کر کچھ “بیچنا” چاہتے ہیں۔
تیسری قسم کا مائنڈ سیٹ وہ ہے جو پیسے کے لئے تیار ہو رہا ہے یہ بیٹھ کر پیسہ کمانا اور کھانا چاہتے ہیں۔ یہ بلڈنگ پر بلڈنگ اور زمین پر زمین خرید تے ہیں اور اس طرح گھر بیٹھے ایک “لگژری لائف” انجوائے کرتے ہیں۔ اگر یہ تینوں کام حلال طریقے پر اور جائز انداز سے ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن میرا موضوع اور مضمون یہ تینوں ہی قسم کے مائنڈ سیٹس نہیں ہیں۔
چوتھی قسم کا مائنڈ سیٹ جس سے ہمارا تعلیمی نظام، ہمارے والدین، ہمارے اساتذہ اور ہمارا معاشرہ سب کے سب نابلد اور عاری ہیں وہ “آئیڈیاز” کا مائنڈ سیٹ ہے اور خوش قسمتی سے ہندوستان کے کاروباری حضرات نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا ہے کہ وہ چوتھا مائنڈ سیٹ پیدا کریں۔حیرت انگیز طور پر ان بانیوں میں سے زیادہ تر نوجوان اور مڈل ایج کے کامیاب کاروباری خواتین وحضرات ہیں۔
یہ سوشل انٹرپرینورز ہیں۔ یہ عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر امجد علی ثاقب اور ڈاکٹر عبدالباری جیسے لوگ ہیں یہ معاشرے کے درد کو اپنا درد اور قوم کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں۔ یہ بل گیٹس، مارک زکر برگ اور سٹیو جابز جیسے لوگ ہیں، یہ معاشرے کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ یہ سارے ہی لوگ چوتھے مائنڈ سیٹ کے لوگ ہیں یہ “آئیڈیاز” پر کام کرتے ہیں، یہ پیسے کے بجائے “آئیڈیاز” کے پیچھے بھاگتے ہیں یہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بے شمار خوبیوں اور لامحدود استعداد کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں اورخوشیاں پیدا کردیتے ہیں۔کیا ہم بھی اس سمت میں کبھی قدم اٹھا پائیں گے۔؟
Comments
Post a Comment