Kaneer کنیر کا پودا جراثیم کش

 کنیر Kaneer

عربی زبان میں دفلی 

فارسی زبان میں خرمہرہ

سندھی زبان میں زنگی گل تامل

تیلیگو گنےرو : بنگالی میں کردی کرابی

انگریزی زبان میں اولی اینڈر Oleander

 پشتو میں گنڈیرے 

نوٹ: یہ زہریلا پودا ہے ،اس کا کھانا نقصان دہ ہے ، حلق معدے میں سوزش ، منہ پر سرخی، پیشاب و پاخانہ کا بند ہونا ورم زبان تنگی تنفس اور غشی لاتا ہے ۔ اس کے بیج سم قاتل ہوتے ہیں ۔ 


کنیر کا پودا کئی طبی خصوصیات کا حامل ایک جھاڑی نما سدابہار پودا ہے جس پر تقریباً سارا سال خوبصورت پھول کھلتے رہتے ہیں۔ 

پنجابی اور اُردو میں اس کو "کنیر " کہتے ہیں، جبکہ انگریزی میں "اولینڈر" کہتے ہیں۔ اس کا نباتاتی نام "نیریم اولینڈر"ہے۔ لمبے گہرے سبز پتوں اور ٹہنیوں سے بھری ہوئی یہ جھاڑی نما پودا بہت سخت جان ہوتا ہے، تیز گرمیوں اور کم پانی میں بھی اس پر سارا سال پھول کھلتے رہتے ہیں۔ کنیر کی ٹہنیوں کے اُوپر سفید، گلابی، سرخ، زرد، ہلکے نارنجی اور ہلکے عنابی رنگ کے پھول لگتے ہیں ۔ پھول جھڑنے کے بعد اس میں ایک پھلی بنتی ہے، بیچ  پکنے پر پھلی پھٹ جاتی ہے ، بیجوں کے اُوپر ہلکے ہلکے روئے ہوتے ہیں جو اس کو ہوا میں اُڑنے میں مدد دیتے ہیں۔   نیریم اولینڈر خاندان کے اس رکن کا اصل وطن موریطانیہ، مراکو، پرتگال بتایا جاتا ہے جہاں سے یہ بحیرہ روم کے علاقے سے ہوتا ہوا امریکہ کے مشرقی ساحل، ایشیا اور جنوبی چین تک کو اپنا گھر بنا چکا ہے۔چونکہ یہ  پودا سخت گرمی کو برداشت کرسکتا ہے اور  کم پانی میں بھی خوب پھلتا پھولتا ہے اس لئے دنیا کے اکثر گرم علاقوں میں اس کی نشونما خوب ہوتی ہے۔ 

پاکستان کے تقریباً تمام علاقوں پنجاب سندھ خیبر پختونخوا افغانستان میں کنیر کا پودا پایا جاتا ہے خودرو پیدا ہوتی ہے۔ گلابی رنگ کے پھولوں کا پودا عام ملتا ہے۔ پاکستان میں اکثر زیبائش کیلئے باغوں ، سڑکوں کے کناروں یا درمیان میں گرین بیلٹس پرعام طور پر کنیر کے پودے لگائے جاتے ہیں۔  امریکہ میں کیلیفورنیا کے ہائی ویز اور سڑکوں کے کنارروں پر یہ پودے اپنی سخت جانی کی وجہ سے لگائے گئے ہیں جن کی اندازاً تعداد 25ملین سے زیادہ ہے۔ 

کنیر کا پودا اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ طبی لحاظ سے بھی بے مثال شہرت رکھتا ہے، 

کنیر بنیادی طور پر ایک زہریلا پودہ ہے، بے احتیاطی سے استعمال نقصان دے سکتا ہے اس کا زہریلا مواد زیادہ مقدار میں کھائے جانے پر نظام ہضم دل کے افعال اور نروس سسٹم پر اثر انداز ہوتا ہے، اس وجہ سے مستند حکیم ہی اسے ادویہ میں استعمال کریں تو بہتر ہے۔ 

ذائقہ میں بدمزہ تلخ و تیز

مزاج گرم و خشک درجہ سوم

رنگ پھول سرخ و سفید پوست زرد اور موٹی جڑ خاکی اور ٹیڑھی۔ 

افعال و استعمال

محلل، مجفف، جالی اور مقوی باہ ہے ۔ محلل ہونے کی وجہ سے اس کے پتوں کا سفوف بعض مرہموں میں ڈالتے ہیں ۔ 

سخت ورموں کو تحلیل کرتا ہے اور خشکی اور جلا کرتا ہے ۔ 

کڑوے پھول ورموں کو تحلیل کرنے جوڑوں کے درد کمر درد شیاٹیکا میں بے حد مفید ہیں، 

پھولوں کا رس چہرہ کے نکھار کے لیے بہترین چیز ہے لیکن آنکھوں کو نقصان دے سکتا ہے احتیاط ضروری ہے۔ 

سفید پھولوں سے بنی نسوار پرانے نزلہ اور اس سے بننے والی دماغی رطوبتوں کے علاج میں نہائت مفید ہے۔ 

اس کی مسواک کڑوی ضرور ہے لیکن پائیوریا جیسے مرض میں اسے اکثیر آعظم مانا گیا ہے۔ 

اس کی جڑ کو دودھ میں جوش دے کر دودھ سے بطریق معروف مکھن نکال کر مناسب مقدار میں کھلانا قوت باہ کیلیے فائدہ مند ہے ۔ 

اس کی جڑ پانی سے پٹھوں کی طاقت کے لیے طلاء بنایا جاتا ہے ۔ سرد امراض میں بیرونی طور پر تیل مفید ہے ۔ 

اس کے پتوں کا سفوف زخموں پر چھڑکتے ہیں ، زخموں کو مندمل کرتی ہے ۔ 

ورموں کو دور کرنے کیلئے اس کے جوشاندے سے ٹکور کرتے ہیں ۔ 

اتنی خوبیوں کے حامل اس پودے کا حق بنتا ہے کہ اسے غیر ملکی فضول بلکہ نقصان دہ پودوں کی جگہ سڑکوں کے کنارے، شاہراہوں کی سبز پٹیوں، پارکوں، باغوں میں فروغ دیا جائے۔


کنیر کا پودا آسانی سے اُگایا جاسکتا ہے۔ اس کے چھوٹے پودے کسی بھی نرسری سے مل جاتے ہیں جو کہ قیمتاً بھی سستے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ جھاڑی نما پودا ہے اس لئے اس کو بطور باڑ استعمال کیا  جاتا ہے۔ سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹس پر اُگانے کیلئے یہ ائیڈیل تصور کیاجاتا ہے۔ اس پودے کی نسبتاً مضبوط ٹہنیوں کو سردیوں کے اختتام پر کاٹ کر قلمیں بنا کر گملوں میں لگانے سے نئے پودے بھی حاصل کیئے جاسکتے ہیں۔   


چونکہ اس کا ذائقہ کڑوا اور تاثیر زیریلی ہوتی ہے قریب بسم ہے ۔ اس کو اندرونی طور پر احتیاط کے ساتھ حکماء اپنی نگرانی میں استعمال کرتے ہیں ۔ 

یہ تقریباً واحد پودا ہے جس کو بکری بھینس نہیں کھاتی۔

Comments

Popular posts from this blog

Dr Ashraf Iqbal geogebra letter

چکوال ڈاکٹر محسن منہاس