Ford hr
ہنری فورڈ دنیا کا پہلا بزنس مین تھا جس نے روزانہ آٹھ گھنٹے کام‘ ہفتے میں دو چھٹیوں اور اسمبلنگ پلانٹ کا تصور دیا‘ فورڈ کمپنی سے پہلے مزدور غلام ہوتے تھے‘ یہ ہفتے میں سات دن پندرہ پندرہ گھنٹے کام کرتے تھے اور چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہوتا تھا‘ کارخانوں میں سارا کام بھی ہاتھ سے ہوتا تھا‘ ہنری فورڈ نے کنویئر بیلٹ بنائی اور ملازم بیلٹ کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر پرزے جوڑنے لگے یوں کام بھی آسان ہو گیا اور پیداوار بھی بڑھ گئی چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں ہنری فورڈ جدید بزنس اور جدید صنعتوں کا بانی تھا۔
وہ اپنے ملازمین کو مارکیٹ میں سب سے زیادہ معاوضہ بھی دیتا تھا‘ ایک بار ایک صحافی آیا اور اس نے ہنری فورڈ سے پوچھا ”آپ سب سے زیادہ معاوضہ کس کودیتے ہیں“ فورڈ مسکرایا‘ اپنا کوٹ اور ہیٹ اٹھایا اورصحافی کو اپنے پروڈکشن روم میں لے گیا‘ ہر طرف کام ہو رہا تھا‘ لوگ دوڑ رہے تھے‘ گھنٹیاں بج رہی تھیں اور لفٹیں چل رہی تھیں‘ ہر طرف افراتفری تھیں‘ اس افراتفری میں ایک کیبن تھا اور اس کیبن میں ایک شخص میز پر ٹانگیں رکھ کر کرسی پر لیٹا تھا‘ اس نے منہ پر ہیٹ رکھا ہوا تھا‘ ہنری فورڈ نے دروازہ بجایا‘ کرسی پر لیٹے شخص نے ہیٹ کے نیچے سے دیکھا اور تھکی تھکی آواز میں بولا ”ہیلو ہنری آر یو اوکے“ فورڈ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا‘ دروازہ بند کیا اور باہر نکل گیا‘ صحافی حیرت سے یہ سارا منظر دیکھتا رہا‘ فورڈ نے ہنس کر کہا ”یہ شخص میری کمپنی میں سب سے زیادہ معاوضہ لیتا ہے“ صحافی نے حیران ہو کر پوچھا ” یہ شخص کیاکرتا ہے؟“ فورڈ نے جواب دیا ”کچھ بھی نہیں‘ یہ بس آتا ہے اور سارا دن میز پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھا رہتا ہے“ ۔
صحافی نے پوچھا ”آپ پھر اسے سب سے زیادہ معاوضہ کیوں دیتے ہیں“ فورڈ نے جواب دیا ”کیوں کہ یہ میرے لیے سب سے مفید شخص ہے“ فورڈ کا کہنا تھا ”میں نے اس شخص کو سوچنے کے لیے رکھا ہوا ہے‘ میری کمپنی کے سارے سسٹم اور گاڑیوں کے ڈیزائن اس شخص کے آئیڈیاز ہیں‘ یہ آتا ہے‘ کرسی پر لیٹتا ہے‘ سوچتا ہے‘ آئیڈیا تیار کرتا ہے اور مجھے بھجوا دیتا ہے۔
میں اس پر کام کرتا ہوں اور کروڑوں ڈالر کماتا ہوں“ ہنری فورڈ نے کہا ”دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز آئیڈیاز ہوتے ہیں اور آئیڈیاز کے لیے آپ کو فری ٹائم چاہیے ہوتا ہے‘ مکمل سکون‘ ہر قسم کی بک بک سے آزادی‘ آپ اگر دن رات مصروف ہیں تو پھرآپ کے دماغ میں نئے آئیڈیاز اور نئے منصوبے نہیں آ سکتے چناں چہ میں نے ایک سمجھ دار شخص کو صرف سوچنے کے لیے رکھا ہوا ہے‘ میں نے اسے معاشی آزادی بھی دے رکھی ہے تاکہ یہ روز مجھے کوئی نہ کوئی نیا آئیڈیا دے سکے“ صحافی تالی بجانے پر مجبور ہو گیا۔
آپ بھی اگر ہنری فورڈ کی وزڈم سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ بھی بے اختیار تالی بجائیں گے‘ انسان اگر مزدور یا کاریگر ہے تو پھر یہ سارا دن کام کرتا ہے لیکن یہ جوں جوں اوپر جاتا رہتا ہے اس کی فرصت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بڑی انڈسٹریز اور نئے شعبوں کے موجد پوراسال گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے۔
میں اپنی بات کی وضاحت کے لیے آپ کے سامنے چار مثالیں رکھتا ہوں‘ ہمارے دور میں صدر رونلڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر دو کام یاب ترین لیڈر گزرے ہیں‘ تھیچر نے برطانیہ کا پورا معاشی فلسفہ بدل دیا‘ آئر لینڈ کا ایشو بھی بھگتا دیا‘ یہ11سال وزیراعظم رہی اور آئرن لیڈی کہلائی‘
نے افغانستان کی جنگ لڑی اور سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ دونوں تاریخ کے فارغ ترین حکمران بھی تھے۔
یہ سارا سارا دن دھوپ تاپتے تھے‘ بطخوں کو دانا ڈالتے تھے‘ واک اور جاگنگ کرتے تھے‘ ریستورانوں میں کھانا کھاتے تھے اور کتابیں پڑھتے تھے‘ رونلڈ ریگن ہالی ووڈ کی ہر نئی فلم بھی دیکھتا تھا‘ اب سوال یہ ہے ان لوگوں نے پھر اتنی اچیومنٹس کیسے کیں‘ اس کے پیچھے دو فارمولے تھے‘ آئیڈیاز اور اچھی ٹیم‘ یہ دونوں بہت اچھے ٹیم میکر تھے اور یہ فری ٹائم میں سوچتے رہتے تھے لہٰذا یہ دونوں دنیا بدلنے میں کام یاب ہو گئے۔
بزنس کی دنیا میں بل گیٹس اور وارن بفٹ بھی ویلے ترین لوگ ہیں‘ وارن بفٹ روزانہ ساڑھے چار گھنٹے پڑھتے ہیں‘ بل گیٹس ہفتے میں دو کتابیں ختم کرتے ہیں‘ یہ سال میں 80 کتابیں پڑھتے ہیں‘ یہ دونوں اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں‘ لائین میں لگ کر کافی اور برگر لیتے ہیں اور سمارٹ فون استعمال نہیں کرتے لیکن یہ اس کے باوجود دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں‘ کیسے؟ فرصت اور سوچنے کی مہلت کی وجہ سے.
آپ یقین کریں ہم جب تک ذہنی طور پر فری نہیں ہوتے ہمارا دماغ اس وقت تک بڑے آئیڈیاز پر کام نہیں کرتا‘ ہم اس وقت تک پاکستان جیسے تصور تخلیق نہیں کر سکتے چناں چہ آپ اگر دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے آپ کو فری رکھنا ہو گا‘ آپ اگر خود کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھائے رکھیں گے تو پھر آپ سوچ نہیں سکیں گے‘ آپ پھر زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکیں گے۔
copied
Comments
Post a Comment