Propaganda
صوبہ سرحد (پختونخوا) کا 1937 سے 1946 اور پھر پاکستان بننے کے بعد 1947-48 میں رہنے والے انگریز گورنر جارج کنینگھم نے اپنی ڈاٸری میں
(جو برٹش لاٸبریری لندن میں پڑی ہے) لکھا ہے کہ جب 1939 میں یورپ میں دوسری جنگ عظیم شروع ہونے والی تھی تو ہمارے ساتھ بڑی فکر سرحد (پختونخوا) کے قباٸلی علاقوں کی تھی کہ یہاں سے ہماری انڈین سلطنت کے لۓ خطرہ زیادہ ہے اور ہمارے حریف جرمنی اٹلی اور روس ہمارے لۓ مشکلات پیدا کر سکتے ہیں تو ہم نے پختونخوا اور قباٸلی علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لۓ سیاسی اسلام کی استعمال کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لۓ پشاور سے لیکر وزیرستان تک مختلف علماۓکرام کی پیسوں کے عوض روس کے خلاف فتوے دینے اور عام لوگوں میں جہاد کی تبلیغ کرنے کے لۓ خدمات حاصل کرلی .
مخصوص علماۓ کرام نے مسجدوں میں , اخباروں میں اور گاوں گاوں جا کر پختونوں میں یہ تبلیغ شروع کر لی کہ اگر روس برٹش انڈیا پر حملہ کرتا ہے تو ہم سارے پختون انگریزوں کا دفاع کرینگے جو اہل کتاب ہے اور روس کے خلاف لڑینگے جو ملحد ہیں اور خدا کو نہیں مانتے ۔ جارج کنینگھم لکھتا ہے کہ ایک سال کی محنت کے بعد سارے پختون بیلٹ میں روس کے خلاف جہاد کا جزبہ زوروں پر تھا اور سارے قباٸلی ایجنسیوں سے ملکان صاحبان نے جرگوں اور خطوط کے زریعے نہ صرف روس کے خلاف لڑنے کی یقین دہانی کراٸ بلکہ جنگ کیلۓ بناٸ گٸ وار فنڈ میں بہت پیسے جمع کرواۓ ۔
جارج کنینگھم اگے لکھتا ہے کہ جب جرمنی (ہٹلر) نے سب کو حیران کر کے اچانک روس پر حملہ کیا تو اب ہمارے خلاف جرمنی خطرے کی گھنٹی تھی کہ وہ قباٸلی علاقوں انگریزوں کے لۓ مشکلات پیدا کریگی تو ہم نے اپنے پروپیگینڈے کا روخ روس کی بجاۓ جرمنی پر مرکوز کر دیا اور بہت سے علماۓکرام نے بھی پوچھنا شروع کر دیا کہ اب ہم کس قسم کے فتوے دے کیونکہ انگریزوں کی طرح جرمنز بھی تو اہل کتاب ہیں ۔ گورنر کنینگھم لکھتا ہے کہ کرم ایجنسی کے دورے کے موقع پر میں نے قباٸلی ملکان کے ذھنوں میں یہ بات بیٹھا دی اور یہ مثال دی کہ اگر پاڑہ چنار بازار میں ایک پاگل کتا لوگوں کو کاٹنا شروع کر دے تو اپ یہ معلوم کۓ بغیر کہ کتا کس کا ہے سارے شیعہ اور سنی مل کر اس کتے کو مارتے ہو ۔ اسی طرح اب ہٹلر اور جرمنز اگر چہ اہل کتاب ہے لیکن اس کی مثال باولے کتے کی ہے اور اس کو نقصان پہنچانا مسلمان اور انگریزوں کی مشترکہ مذہبی ذمہ داری ہے ۔
گورنر لکھتا ہے کہ میری یہ مثال صرف کرم ایجنسی نہیں بلکہ پورے قباٸلی بیلٹ میں اگ کی طرح پھیلی اور مذہبی فتوے کی شکل اختیار کر لی اور ہم سارے لکھے اور متعین کردہ علماۓ کرام میں باقاعدگی کے ساتھ پروپیگینڈے کے لۓ پیسے تقسیم کرتے رہے اور وہ جرمنز اور اٹالینز کے خلاف فتوے شایع کرتے رہے اور ہر گاوں میں انگریزوں کے حق اور جرمن مخالف مسلسل کامیابی کے ساتھ تبلیغ کرتے رہے اور یوں قباٸلی علاقے جنگ کے دوران 1939 سے 1945 تک خاموش اور جرمنی کے اثر و رسوخ سے پاک رہےاور نہ کوٸ بہت بڑی مشکل پیش آٸ سواۓ وزیرستان کے فقیر ایپی (حاجی میرزالی خان) کے جنکو انگریز سرکار اخر تک نہ خرید سکی اور نہ ہی خاموش کرا سکی ۔ پورے جنگ کے دوران قباٸلی علاقوں کے لوگ علماۓ کرام کے فتووں اور تبلیغ کے تابع رہی ۔
(ریاض علی خٹک )
Comments
Post a Comment