Posts

Showing posts from November, 2024

شادی کیوں

 copied حلال رشتے کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہوتی عورت کی فریاد: میری عمر اس وقت 35 سال ہے میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے ۔خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا ۔ عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں اب تک میرے لئے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جب کہ غیر خاندانوں سے کئ ایک رشتے آئے  لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کیا ہو۔ میرے دلی جذبات کبھی اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ میں راتوں میں چیخ چیخ کر آسمانوں سر پر اٹھاؤں اور دھاڑیں مار مار کر والدین سے کہوں کہ میرا گزارہ نہیں ہورہا خدارا میری شادی کرادیں اگرچہ کسی کالے کلوٹے چور سے ہی صحیح ۔لیکن حیاء اور شرم کی وجہ چپ ہوجاتی ہیں۔  میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ نعش (لاش) بن گئی ہوں ۔ شادی بیاہ وتقریبات میں جب اپنی ہمچولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے دردوں کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔ یا خدا ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دی...

آمنہ

 copied میں جب بھی سعودی مغرب کی جانب گیا، ہے وہاں کے سیاہ پہاڑ دیکھ کر میں سحر زدہ ہو جاتا ہوں، خوفزدہ ہو جاتا ہوں، میں حیران رہتا ہوں کہ یہاں انسانی زندگی کیسے سروائیو کرتی تھی، وہ بھی ان زمانوں میں جب یہاں میل و میل دور کہیں کہیں کوئی کنواں ہوتا تھا، ان پہاڑوں میں کہیں کوئی سایہ دار درخت نہیں، آج کی طرح بجلی اور دوسری اشیاء کی طرف وسائل نہیں، ان پہاڑوں میں انسانی زندگی کیسے گزرتی ہوگی، پھر میں آمنہ کو سوچتا ہوں، کتنے دکھ میں اپنی بیوگی میں اپنے کمسن بیٹے کو لے کر کتنے ہی میل دور اس کے باپ کی قبر پر لے گئی تھی، وہ بیماری سے ٹوٹ چکی تھی، اس نے تو اپنے بیٹے کے ساتھ اس کا بچپن بھی بھرپور نہیں جیا تھا، بس اس کے پاس آیا تھا تو وہ اسے اس کے باپ سے ملوانے کے لیے لے گئی، اسے معلوم ہو رہا تھا کہ شاید اس کے پاس وقت کم ہے اسے اس بیٹے کو اس کے باپ کے پاس لے کر جانا چاہیے، حالانکہ آمنہ شادی سے پہلے اپنے خاندانی نام، وجاہت، خوبصورتی اور آداب میں اتنی معروف تھیں، کہ وہاں کے بیسیوں معتبر لوگ اور جوانوں کی توجہ کا مرکز تھی، بہترین اور خوبصورت نوجوانوں نے اسے شادی کی پیشکش کی تھی، لیکن اس کے والد ...

اکائی

  copied کافی کا کپ  (میرے والدین اور شریک حیات کے نام)  وہ کوئٹہ کی کڑاکے دار سردیوں کا ایک روز تھا۔ گھر کے صحن میں شام کے اندھیرے اتر چکے تھے۔ اتفاق سے ابو کی گھر جلدی واپسی ہو گئی تھی اور ہم چھ نفوس گھر کی واحد انگیٹھی کے گرد دائرہ بناۓ بیٹھے تھے ۔ ایسے میں بڑی بہن نے امی سے کافی کی فرمائش کر ڈالی۔  مخاطب امی یوں تھیں کہ ابو کو گھر آے کچھ ہی دیر ہوئی تھی اور انکو تنگ کرنا مقصود نہ تھا ورنہ ہمارے گھر کے کافی اسپیشلسٹ وہی تھے۔  مگر پھر ہم نے دیکھا کہ امی ابو کے درمیان آنکھوں میں خفیف اشاروں اور زیر لب مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا اور امی نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔ "مجھے کافی بنانی نہیں آتی" ۔ اور چند ہی لمحوں میں ابو کچن میں تھے جہاں سے کپ اور چمچ کی جلترنگ بلند ہو رہی تھی۔   ہمارے ہاں کافی کو مشروب نہیں بلکہ ایک فریضے کا درجہ حاصل تھا،  ایک ایسا فریضہ جو صرف سردیوں میں بصد اہتمام سرانجام دیا جاتا تھا۔  ایک کپ میں کافی چینی اور تھوڑا سا گرم پانی ڈال کر اتنا پھینٹا جاتا کہ اسکا رنگ بدل جاتا۔  اس دوران ایک پتیلی میں دودھ گرم ہوتا رہتا۔ آخر میں ک...