آمنہ

 copied

میں جب بھی سعودی مغرب کی جانب گیا، ہے وہاں کے سیاہ پہاڑ دیکھ کر میں سحر زدہ ہو جاتا ہوں، خوفزدہ ہو جاتا ہوں، میں حیران رہتا ہوں کہ یہاں انسانی زندگی کیسے سروائیو کرتی تھی، وہ بھی ان زمانوں میں جب یہاں میل و میل دور کہیں کہیں کوئی کنواں ہوتا تھا، ان پہاڑوں میں کہیں کوئی سایہ دار درخت نہیں، آج کی طرح بجلی اور دوسری اشیاء کی طرف وسائل نہیں، ان پہاڑوں میں انسانی زندگی کیسے گزرتی ہوگی، پھر میں آمنہ کو سوچتا ہوں، کتنے دکھ میں اپنی بیوگی میں اپنے کمسن بیٹے کو لے کر کتنے ہی میل دور اس کے باپ کی قبر پر لے گئی تھی، وہ بیماری سے ٹوٹ چکی تھی، اس نے تو اپنے بیٹے کے ساتھ اس کا بچپن بھی بھرپور نہیں جیا تھا، بس اس کے پاس آیا تھا تو وہ اسے اس کے باپ سے ملوانے کے لیے لے گئی، اسے معلوم ہو رہا تھا کہ شاید اس کے پاس وقت کم ہے اسے اس بیٹے کو اس کے باپ کے پاس لے کر جانا چاہیے، حالانکہ آمنہ شادی سے پہلے اپنے خاندانی نام، وجاہت، خوبصورتی اور آداب میں اتنی معروف تھیں، کہ وہاں کے بیسیوں معتبر لوگ اور جوانوں کی توجہ کا مرکز تھی، بہترین اور خوبصورت نوجوانوں نے اسے شادی کی پیشکش کی تھی، لیکن اس کے والد نے مسلسل انکار کیا تھا۔ کیونکہ وہ اپنی بیٹی کے لیے مخصوص خصوصیات کا کوئی شخص چاہتا تھا۔ 


آمنہ کا رشتہ کس سے ہوا، اس شخص کے بیٹے کے ساتھ جو کئی برس پہلے مقامی کنواں خشک ہو جانے پر کنواں کھودنے کا کام کررہا تھا، اس کی کوئی اولاد نہ تھی سوائے ایک بیٹے حارث کے، اس لیے لوگ ان پر الزام لگانے لگے، اس لیے انھوں نے اس دن نذر مانی کہ اگر ان کے ہاں دس بیٹے پیدا ہوئے تو ان میں سے ایک کی جان قربان کر دے گا، پھر یوں ہوا کہ اس کے گھر  یکے بعد دیگرے 10 بچوں کی پیدائش ہو گئی اور اب چھوٹے بچے کے نام کی منت پوری کرے یا اپنے بیٹے سے محبت پوری کرے۔ لیکن وہ اب اپنی منت پوری کرنے سے قاصر تھا، کیونکہ اسے اپنے دسویں بیٹے سے بہت محبت تھی، اس لیے اس نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے بجائے سو اونٹ ذبح کر دیے۔ آمنہ کے والد وہب سے اسی دسویں بچے کا رشتہ مانگا گیا، اور یہ رشتہ بھی طے ہوگیا، تو آمنہ کی روح بھی خوشیوں سے بھر گئی۔ آمنہ بنت وہب کو بہت کم لوگ دیکھ پاتے تھے اور ہر وہ عورت جو اسے دیکھتی تھی اس کے بارے میں اس کی خوبصورتی، اس کے آداب اور اس کی ذہانت کے بارے میں بات نہیں کرتی تھی، وہ آمنہ سے اس لیے حسد کرتی تھیں، کیونکہ جس دسیوں بیٹے سے شادی ہورہی تھی، اس کا نام عبداللہ تھا، جو اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھا، وہ نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور دلکش تھا، اور آمنہ مکہ کی بہترین لڑکیوں میں سے ایک تھی۔ اس وقت کے مکہ کے آخری نوجوان کو اس کی آخری لڑکی کے ساتھ ملایا اور ایسے اکٹھا کیا، تاکہ ان کی عظیم اور مختصر کہانی شروع ہوسکے۔ 


جی یہ کہانی مکہ میں عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ اور وہب کی بیٹی آمنہ بنت وہب کی ہے، عبدالمطلب کے دور میں ہی آب زمزم کا کنواں خشک ہوا تھا، اور انہوں نے ہی آب زمزم کو کئی بار کھودنے کی کوشش کی لیکن وہ مقام کھو گیا تھا کہ کہاں پر کنواں تھا، پھر انہیں خواب میں اشارہ ملا، اور انہوں نے جب یہ ذمہ داری لی تو ان کے بیٹے نہیں تھے، انہوں نے نذر مانگی اور اس طرح اس نذر کے بعد ان کے 10 بیٹے ہوئے جو میں نے اوپر لکھ دیا۔ شادی کے بعد عبداللہ چند دن اپنی دلہن کے ساتھ رہا، اس کے بعد ان کی روانگی تھی، کیونکہ عبداللہ کو شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلے میں شامل ہونا تھا۔ دن گزرتے گئے اور آمنہ نے حمل کی علامات کو محسوس کیا اور یہ ایک ہلکا پھلکا اور خوشگوار احساس تھا، اور اسے جنم دینے تک کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی، مگر پھر ایک انتہائی تکلیف دہ خبر آئی، جب آمنہ کو اپنے والد سے معلوم ہوا کہ اس کے شوہر اس کے پیارے عبداللہ کو سفر کے دوران بیماری کا سامنا کرنا پڑا، اور اس کا انتقال یثرب میں ہوگیا، اور ان کی وہیں تدفین کردی گئی، یہ خبر آمنہ تک پہنچی، وہ روئی نہیں۔ لیکن پورا مکہ اس کے لیے روتا رہا، تاہم آمنہ اپنے جنین کی حفاظت کے لیے ثابت قدم رہی، رب تعالیٰ نے آمنہ کی روح میں سکون اور اطمینان بھیجا اور وہ اس جنین کے بارے میں سوچنے لگی جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کیا تھا، جس میں اسے اپنے پیارے شوہر کی موت کی تسلی ملی، اور جس میں اسے کوئی ایسا مل گیا جو اس کے دکھوں کو کم کرے۔ دردِ زہ اس کے پاس آیا، اور وہ اکیلی تھی اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا، لیکن اس نے محسوس کیا کہ ایک بڑی روشنی اسے ہر طرف سے گھیر رہی ہے، پھر اس نے اپنے بچے کو جنم دیا۔۔


آمنہ بنت وہب نے کائنات میں سب سے معزز انسان  محمد رسول علیہ الصلوۃ والسلام کو جنم دیا، آمنہ بنت وہب اس کے ساتھ تھوڑی دیر تک ہی رہیں، بس جب تک کہ انہوں نے اسے حلیمہ سعدیہ کے پاس صحرا میں نہیں بھیجا، عربوں میں یہ قدیم روایت تھی کہ تھوڑی سی متمول خواتین اپنے بچوں کو صحرا میں دودھ پلانے کے لیے بھیج دیتی تھیں، قریب دودھ پینے کی عمر کے بعد جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعدیہ حلیمہ کے پاس سے واپس لوٹے تو حضرت امنہ نے دیکھا کہ یہ اسے اپنے شوہر کی محبت نہیں بتا سکیں، آمنہ بنت وہب نے سوچا کہ اپنے بیٹے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لیے جائیں، چنانچہ وہ اپنے سفر پر روانہ ہو گئیں۔ یثرب کی طرف جاتے ہوئے انہوں نے ام ایمن کو بھی ساتھ  لے لیا، ام ایمن کا اصل نام "برکہ بنت ثعلبہ" تھا، لیکن انہیں عام طور ام ایمن کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہ عبد اللہ بن عبد المطلب کی خادمہ تھیں، آمنہ بنت وہب اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے شوہر عبداللہ کی قبر پر پہنچی، وہ لمحہ آمنہ بنت وہب کے لیے کیسا لمحہ تھا، جب انہیں اپنا کمسن بیٹا بھی ایک نوجوان بیٹا نظر آرہا تھا، جو اپنے باپ کی قبر پر اداسی سے کھڑا ہوا تھا، میں سوچتا ہوں کہ وہ کیسا لمحہ ہوگا، اس لمحے  امنہ بنت وہب کیسا درد محسوس کررہی ہونگی، کیا اس لمحے آمنہ بنت وہب نے اپنے تصور میں اپنے شوہر عبداللہ کی شکل و صورت کو دیکھا ہوگا، اس لمحے اپنے بیٹے کو دیکھا ہوگا اس کی ضروریات کے بارے میں سوچا ہوگا کہ وہ ایک یتیم پیدا ہوا اور اس کا بچپن بغیر باپ کے گزرے گا۔ 


امنہ بنت وہب زیادہ دیر اس قبر پر رک نہ سکی تھیں، وہ درد تکلیف کی کیفیت میں ایک اذیت سے گزر رہی تھیں،  پھر آمنہ نے واپسی کا قصد کیا،  آمنہ اپنے بیٹے اور ایمن کی والدہ کے ساتھ مکہ آنے کے لئے 150 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے الابوا پہنچ گئیں، آج کل اس جگہ کا نام "وَادِی الْخُرَيْبَةِ" ہے، آمنہ بنت وہب کا مقصد اپنے بیٹے کو اس کے والد کی قبر اور بیٹے کے مامووں سے ملوانا تھا، مگر آمنہ کے لیے یہ بہت تکلیف دہ لمحات تھے، سفر کا ہر قدم بوجھل تھا اور تھکاوٹ بڑھا رہا تھا، الابوا پہنچ کر تھکاوٹ سے یہ عالم ہونے لگا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا ہاتھ تھام لیا۔ روح بوجھل ہو رہی تھی، کچھ سالوں سے اپنے درد سے لڑ رہی تھیں، اس وقت ان کی نظر اپنے بیٹے پر تھی، آمنہ کو احساس ہو گیا تھا کہ اس وقت میرا اطمینان اپنے بیٹے کی آنکھوں میں دیکھنا ہے۔ آمنہ کی نظریں اس وقت تک اپنے بیٹے کی جانب تھیں، جب تک آمنہ کی روح اس سے مطمئن نہ ہو جائے اسے لگتا تھا کہ یہ بیماری لاعلاج ہے اور یہ صرف چند لمحوں کی بات ہے اور اس کی روح اپنے خالق کے پاس جائے گی۔ وہ جانے سے پہلے اپنے بیٹے سے نظریں ملانا چاہتی تھیں، تھکاوٹ آمنہ کا محاصرہ کرتی رہی، لیکن وہ ثابت قدم رہی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تھام لیا، اور وہ زمین پر گر پڑیں، پھر ام ایمن نے انہیں اٹھایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف اور اپنی معصوم آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے کہا: جیسے جیسے ہی میں نے انہیں اٹھایا، میری ماں نے اپنی ہتھیلیوں کو اٹھایا اور مجھے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو گلے لگالیا، اور ان سے کہا: { يابني كل جديد بال، وكل آت قريب، وكل حي ميت }۔ ترجمہ ""اے میرے بیٹے، ہر چیز نئی آنے والی ہے، اور جو کچھ آنے والا ہے وہ قریب ہے اور ہر زندہ چیز مر گئی ہے."""""


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ آمنہ کو ایک عجیب کیفیت میں دیکھا، وہ لمحہ جس میں خوف، تنہائی اور شدید غم کی حالت تھی، وہ حالت بیان سے قاصر تھی، آمنہ کی روح پرواز کر چکی تھی، ام ایمن غمزدہ حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ہاتھ پھیر کر انہیں تسلی دینے کی کوشش کرنے لگیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ "محمد! میری مدد کرو، ہمیں تمہاری ماں کی قبر کھودنی ہوگی، اک یتیم بچے کے لیے وہ کیسا منظر ہوگا، چھ سال کا بچہ جو کل اپنے والد کی قبر کو دیکھ رہا تھا، اور اگلے دن اپنی والدہ کی قبر کھود رہا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن کے ساتھ قبر کی کھدائی شروع کی، یہ وہ کائنات کا سب سے بڑا شخص تھا جب وہ خود صرف چھ سال کا تھا، جب وہ صحرا اور گرم آب و ہوا میں اپنی ماں کی قبر کھود رہا تھا، قبر کھودتے ہوئے وہ رو رہا تھا، شدید رونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، وہ بار بار اپنی والدہ کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا، بالآخر قبر کھودنے کے بعد ام ایمن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہہں اسی مقام پر دفنا دیا۔ جہاں آمنہ بنت وہب کا انتقال ہوا تھا۔ غم اور اذیت میں چھ سال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں بیٹھ گئے، تو ام ایمن نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا، اور ان سے کہا کہ اب ہمیں چلنا چاہیے۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے ماں (ام ایمن) ہم اپنی ماں (آمنہ بنت وہب)  کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔" ام ایمن نے کہا چلو بیٹا:  ”تم میرے بیٹے ہو۔ آو چلیں۔ 


اپنی ولادت سے پہلے ہی والد کا انتقال ہو جائے، جسے اپنے باپ کی محبت نہ ملی، چھٹے برس جب حلیمہ سعدیہ سے واپس ماں کے پاس پہنچے تو انتہائی محدود وقت میں ایک بچہ اپنی ماں کی محبت سے بھی محروم ہوگیا۔ پھر رسالت کے بعد اور فتح مکہ کے بعد اس راستے سے گزرے وقت جب کئی سال بیت گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ آمنہ بنت وہب کی قبر پر کھڑے ہو کر روئے، ان کے ساتھیوں نے دیکھا انہیں اندازہ ہوا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے اس سے زیادہ روتے ہوئے کبھی نہ دیکھا۔ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو“ یعنی میں نے خود ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس دن جب ہم جدا ہوئے اس لمحے سے زیادہ روتے ہوئے نہیں دیکھا: ۔جب میری ماں آمنہ بنت وہب مجھ سے جدا ہوئیں۔ جس نے مجھے جنم دیا۔  صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔ مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں، وہ چاہے ہماری ہوں یا انبیاء کی مائیں۔۔۔ محبتوں کا تلاطم خیز سمندر صرف مائیں ہیں۔ 


نوٹ: 

1ـاس پوسٹ کے لکھنے میں عربی ویب سائٹس کی مدد لی گئی ہے، کوشش کی ہے ان روایات کو تمثیلی انداز میں لکھا جائے۔ یہ تاریخی کتب کی بنیاد پر لکھی گئی تحریر ہے۔ 


2ـ اماں آمنہ کی زندگی کے بارے میں اس طرز میں کافی کم مواد اردو میں نظر آتا ہے، بارہا میں نے سیرت کی کئی کتابیں دیکھی لیکن اس میں سفر کا مکمل احوال اس طرح سے نہیں مل پایا۔ بہرحال اگر اس میں کوئی کمی بیشی ہے تو اہل علم حضرات مجھے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 


تحریر : منصور ندیم


مورخہ سنہء 19 نومبر, سنہء 2024. 

۔

Comments

Popular posts from this blog

Dr Ashraf Iqbal geogebra letter

چکوال ڈاکٹر محسن منہاس