پقنک - زراعت کا ایک فائدہ مند طریقہ
[7/24, 9:15 PM] Abid Hussain Drakht Aur Organic Kheti: *درخت اور اورگینک کھیتی*
تحریر: امتیاز حسین پنجوتھ اور حلیمہ عرفان ( ایڈمن گروپ 11)
آرگینک طریقہ کاشتکاری میں "ملچنگ" کی بہت اہمیت ہے.یہ زمین کو زرخیز بناتی ہےاور اچھی پیداوار کا باعث بنتی ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ ملچنگ کہتے کس کو ہیں؟
ملچنگ کا لفظی مطلب ہے زمین کو ڈھانپ دینا یا کسی چیز کی مدد سے کور کر دینا۔ زمین کو ڈھانپنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔1. نامیاتی یا اورگینک ملچنگ اور 2. غیر نامیاتی یا ان اورگینک ملچنگ۔
ان اورگینک ملچنگ میں زرعی زمین کو سیاہ رنگ کے پلاسٹک سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ عموماً یہ ٹنل فارمنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بہت زیادہ نقصانات مشاہدے میں آئے ہیں۔ اس سے زمین میں موجود حشرات ہلاک ہو جاتے ہیں اور اگر بروقت فصل نہ کاٹی جائے تو اسے شدید نقصان بھی ہوتا ہے۔
نامیاتی ملچنگ کی دو اقسام ہیں لائیو ملچنگ اور ڈیڈ ملچنگ۔ لائیو ملچنگ میں کچھ مخصوص پودوں کو زمین کی سطح پر بچھا دیا جاتا ہے۔
ان پودوں سے پیداوار بھی حاصل کی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ ان کے پتے، شاخیں اور پھول ملچنگ کا کام بھی کرتے ہیں۔ مونگ اور جنتر لائف ملچنگ میں استعمال ہو سکتی ہیں۔
ڈیڈ ملچنگ میں کماد کی چھوئی،
گندم کا بھوسہ، دھان کی پرالی، جنگلی دب، جانوروں کا بچا ہوا چارا، بے موسم کی لوسرن (لوسن) اور تمام فصلوں کی باقیات شامل ہیں۔
رھڈ گراس کو بھی ملچنگ کے لیے کاشت کیا جا سکتا ہے۔
نامیاتی ملچنگ (اورگینک ملچنگ ) کےفوائد
1۔ملچنگ پانی کو بخارات بن کر ضائع ہونے سے بچاتی ہے۔ اس طرح اگر دس دن بعد فصل کو پانی لگانا ہو تو ملچ کرنے کے بعد ایک ماہ یا یا بیس دن بعد پانی لگانا ہوگا۔ اس طرح پانی کی بچت ہوگی۔
2۔ بارانی زمینوں میں ملچنگ کر دیں تو فصل زیادہ بہتر ہوگی۔
3۔ملچنگ پودوں کو موسموں کی سختی سے بچاتی ہے۔ شدید سردی اور شدید گرمی میں ملچنگ کے نیچے مٹی کا درجہ حرارت معتدل رہتا ہے جو زمینی حشرات اور پودوں کی جڑوں کو محفوظ رکھتا ہے۔
4۔ملچ گلنے سڑنے کے عمل سے گزرتا ہے،کیڑے مکوڑوں کی آماج گاہ بنتا ہے اس طرح خود بخود زمین میں نامیاتی مواد میں اضافہ ہو جاتا ہے اور نتیجے میں زمین پہلے سے زیادہ زرخیز بن جاتی ہے۔
5۔ ملچنگ میں پیدا ہونے والے حشرات زمین کو نرم اور بھربھرا بنا دیتے ہیں جس کی وجہ سے زمین کو گوڈی کی ضرورت نہیں پڑتی۔زمین
میں پودے کی جڑوں کو پھیلنے میں آسانی ہوتی ہے اور مفید گیسوں کا
اخراج اور تبادلہ باآسانی ہوتا ہے۔
6۔ملچ کے نیچے جڑی بوٹیاں پیدا نہیں ہوں گی لہذا ان کو تلف کرنے کے اضافی اخراجات سے بچا جا سکے گا۔
7۔کیڑے مار ادویات کا استعمال بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ اس طرح ایک طرف اخراجات میں کمی ہوگی تو دوسری طرف مضر صحت اجزاء بھی فصلوں میں شامل نہیں ہو پائیں گے۔
8۔فصل زیادہ صحت مند ہوگئی اور پیداوار میں اضافہ نظر آئے گا۔
گویا ملچنگ سے نہ صرف زمین زرخیز ہوتی ہے بلکہ پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور کسان ادویات اور فرٹیلائزر کے اضافی اخراجات سے بچ کر زیادہ منافع حاصل کرسکتا ہے۔۔۔۔۔
خصوصی شکریہ۔۔۔راجہ ممتاز احمد صاحب ، رضوان اشرف صاحب اور منیر احمد شاہین صاحب
[7/24, 10:16 PM] Abid Hussain Drakht Aur Organic Kheti: تحقیق و تحریر ۔۔عظمت خاکوانی
پقنک طریقہ کاشتکاری کے بارے کثرت سے کیے جانے والے سوالات ٖ
سوال 1۔ پی اے / پقنک کسے کہتے ہیں ؟
جواب ۔ 1 انگریزی زبان میں اسے پیرا ڈوکسیکل ایگریکلچر کا نام دیا گیا ہے۔ مختصرا" اسے ( پی اے ) کہتے ہیں۔
اُردو زبان میں اسے پائیدار قدرتی نظامِ کاشتکاری کہتے ہیں۔ مختصرا" اسے ( پقنک ) کہتے ہیں۔
س ۔ 2 پی اے / پقنک کیا ہے؟
ج ۔ پقنک ایک ایسا نظامِ کشتکاری ہے جو کروڑوں برس سے قائم زمین میں پہلے سے موجود قدرتی طورپر متوازن و خودکار نظامِ جنگلات و نباتاتی پیداوار کے طریقہ کار کو سمجھنے اور مائیکرو بیالوجی کے شعبے میں زیرِ زمین سب سے پہلے پیدا ہونے والی انتہائی باریک خورد بینی زندہ مخلوقات جیسے مائکورہزل فنگی نیٹ ورک اور مائیکرو آرگینزمز کی اب تک دریافت ہونے والی مختلف اقسام کا اپنی روزمرہ خوراک کے حصول،اپنی نسل کی نشو نما، بقا و حفاظت اور بڑھوتری کے لیے ایک دوسرے پر انحصار اور خوراک کے تبادلے کی بنیاد پر قائم تعلق اور زمین پراُگنے والے پودوں اور درختوں کی پیداور میں معاون کردار سے متعلق دنیا بھر جدید علوم کی 1984 کے بعد ہونے والی دریافتوں، تحقیق و ترقی سے متاثر ہو کر وجود میں آیا۔
پقنک کو ہم گزشتہ ںصف صدی سے رائج نام نہاد روایتی " سبز انقلاب " ، " جتنا گہرا ہل اتنا زیادہ پھل "، " دب کے وہا تے رج کے کھا "، " جتنی زیادہ گوڈی اتنی ڈوڈی" ایسے گمراہ کن نعروں کے زریعے مختلف مصنوعات بیچنے اورفی ایکڑ زیادہ سے زیادہ پیداور کے لالچ کی بنیاد پر چلنے والے مہنگے طریقوں جو کہ اب مکمل طور ناکام، فرسودہ اور غیر منافع بخش ثابت ہو چکے ہے کا بالکل اُلٹ یا متضاد طریقہِ کاشتکاری کی ارتقائی و عملی اور سائنس کہتے ہیں۔
سوال نمبر 3 - کیا پقنک میں کھادوں اور زہریلی کیڑے مار ادویات کا استعمال ہوتا ہے؟
جی بالکل نہیں، پقنک قدرتی نظامِ کاشتکاری سے مماثلت رکھنے والا ایک ایسا منفرد نظام ہے جس میں زمین کو ہرقسم کی ماحول دشمن مصنوعی کھادوں و زہریلی ادویات اور کیمکلز کے مہنگے اور انتہائی پیچیدہ استعمال کے جھنجھٹ سے چھُٹکارہ حاصل کرنے کا عہد کرکے انکا استعمال ہمیشہ کے لیے ترک کیا جاتا ہے۔
سوال نمبر 4 – اگرزمین میں معدنیات وغیرہ کی کمی یا کمزوری ہو تو بغیر کھاد ڈالے زیادہ پیداوار کیسے ہوسکتی ہے؟
جواب - پقنک میں زیرِ زمین زندہ حیات ( مائیکرو آرگینزمز/ بائیوٹا- انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والی خوردبینی ننھی مخلوقات، ربِ کریم کے لشکروں ) کی آبادکاری اور بڑھوتری کے لیے قدرتی ماحول کی ارتقائی بحالی کے لیے زمین کو فصلوں کی فالتو باقیات ( زمین میں اگنے والے ہر قسم کےپتوں، خودرو جھاڑیوں، گھاس پھوس وغیرہ) سے ڈھانپ کر ملچ کرکے زیرزمین درجہِ حرارت کو اعتدال میں رکھا جاتا ہے جسکی وجہ سے زمین میں نمی اور ہوا محفوظ رکھنے کی صلاحیت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
پقنک ماحول پیدا ہوتے ہی زمین میں نمی اور ہوا (وتر) کی متناسب موجودگی، درجہِ حرارت میں اعتدال اور آرگینک مواد جس سے ملچنگ کی گئی ہوتی ہے کے امتزاج سے ہیومس پیدا ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ ( ڈی کمپوز) فنا ہوکر ان ننھی زندہ مخلوقات کے لشکروں کی خوراک بنتا رہتا ہے اور انکو پھلنے پُھولنے، اپنی آبادیوں میں اضافہ کرنے اور زمین میں پہلے سے وافر مقدار میں موجود لامحدود معدنیات کے خزانوں کو پودوں کی طلب، ضروت اور ہضم کرنے کی صلاحیت کے عین مطابق خوراک میں تبدیل اور بروقت فراہم کرنے کا بہترین ماحول پیدا کر دیتا ہے۔
سوال نمبر 5 – پقنک پر منتقل ہونے کے بعد اگر کیڑوں یا بیماریوں وغیرہ کا حملہ ہو تو کیا جاتا ہے؟
جواب - پقنک پروسیس پر منتقل ہونے کے بعد پہلی فصل (ٹرانزیشن) کے دوران ماضی میں کھادوں اور مصنوعی کیمیلز کے بے تحاشہ استعمال کی باقیات کی موجودگی کی صورت میں محدود پیمانے پرحملے ہو سکتے ہیں۔ ٹرانزیشن کے دوران مسلسل نگرانی کی جاتی ہے اور بہ امرِ مجبوری پقنک نظام پر عمل کرنے والے سینیئر کاشتکاروں کے مشورے کے مطابق انتہائی محدود مقدار میں فولیر سپرے کی مدد سے کھادیں اور دوایئاں استعال کی جاتی ہیں ۔
سوال نمبر 6 – مصنوعی کھادوں اور زہریلے مواد سے آلودہ زمین کی بحالی میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے؟
جواب – اگر پقنک کے تمام اصولوں پر شروع سے ہی سختی اور ایمانداری سے عمل کیا جائے تو زمین کی موجودہ خرابیوں اور ماضی میں کی جانی والی غلطیوں کے درجے کے مطابق پہلی فصل سے تیسری فصل پیدا ہونے تک زمین اپنی قدرتی زرخیزی بحال کرلیتی ہے۔ کم آلودہ زمین میں پہلی فصل سے ہی بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
سوال نمبر 7 – اگر ہل نہیں چلائیں گے تو پقنک طریقہ میں مختلف فصلوں کی بجائی کیسے کی جاتی ہے؟
جواب - پقنک اصولوں اور نظام کے تحت زمین میں بار بار ہل چلائے بغیر مستقل بنیادوں منصوبہ بندی کے تحت ابتدا میں صرف پہلی دفعہ ایک مرتبہ مستقل اُنچے بستر (ریزڈ بیڈز) بنائے جاتے ہیں اور ہربیڈ کے دونوں طرف پانی و ٹریکڑ گزرنے کر راستے بنائے جاتے ہیں اوربہت کم پانی صرف ان نالیوں یا راستوں بوقت ضرورت ہی دیا جاتا ہے۔
پقنک نظام کے تحت چھوٹے پیمانے پر بجائی یا پلانٹیشن دستی پلانٹر یا ہاتھ سے کی جاسکتی ہے اور بڑے پیمانے پر مشینوں کے زریعے مخلتف پودوں کی سایئز کے مطابق ہر پودے سے پودے اور ایک لایئن سے دوسری لایئن کے درمیان برابر فاصلہ رکھ کرپہلے سے طے شدہ مخصوص فاصلوں پر گن کر ہر بیچ کی بالکل درست فاصلوں پر خوبصورت طریقے سے بیجائی کی جاتی ہے۔
سوال نمبر 8 – کیا پقنک طریقہ پربیڈ بنانے، بیجائی کرنے اور کٹائی کرنے کی مشینیں پاکستان میں ملتی ہیں؟
جی ہاں! اب پاکستان میں ہر سایئز کے چھوٹے بڑے بیجوں کی بجائی کی بہترین مشینیں بن چُکی ہیں جو پقنک کسانوں کے برس ہا برس کے کامیاب آزمائیشی عملی تجربات کے بعد مقامی طور پر ڈیزاین شدہ ہیں اور مہنگی غیرملکی مشینوں سے کئی گناہ کم قیمت جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل ہیں ان مشینوں کے زریعے ہر قسم کی فصلوں کی مُنظم طریقے سے بجائی، ٹرنسپلانٹیشن، اور کٹائی کی جا رہی ہے اورکھیتوں سے حیران کن طور پر روائتی طریقے کے مقابلے میں انتہائی کم پانی اور لیبر اخراجات کی بچت کرکے منافع بخش کاشتکاری کی جاتی ۔
پقنک طریقہ کاشتکاری موجودہ روائتی زمین و ماحول دشمن ، پیچیدہ و فرسودہ طریقہِ کاشتکاری کے مقابلے میں انتہائی آسان و کم خرچ طریقہِ کاشتکاری ہے
پقنک طریقہ کاشتکاری موجودہ حالات میں کسانوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خوشنما مگر پُر فریب جال سے سے آزادی دلاتا ہے اور غزائیت، زائقہ اور خوشبو سے بھرپور اعلیٰ کوالیٹی کی 80 فیصد تک زیادہ پیداوار حاصل کرنے کا واحد زریعہ ہے۔
سوال نمبر 9 – یہ مشینیں پاکستان میں کہاں پر ملتی ہیں؟
جواب – فی الحال یہ مشینیں لاہور کی مخصوص ورکشاپس میں آڈر پر تیار ہورہی ہیں۔ آپ یہ ان ورکشاپس سے اپنی ضروریات کے مطابق آڈر بک کرکے بنوا سکتے ہیں یا ان ورکشاپس سے ڈیزاین نقل کر کے خود اپنے علاقے کی ورکشاپس میں تیار کروا سکتے ہیں۔
سوال نمبر 10 – پقنک طریقہ کاشتکاری کے بارے مکمل معلومات کہاں سے ملیں گی؟
جواب – پقنک کے بارے مکمل معلومات اخوت کسان پاکستان کے تعاون سے محترم آصف شریف کے تیار کردہ تفصیلی لیکچرز یو ٹیوب اور فیس بک پر دستیاب ہیں۔ اسکے علاوہ وٹس ایپ کے گروپس میں آصف شریف صاحب براہ راست راہنمائی کرتے ہوئے پقنک کشتکاروں کے سوالات کا تسلی بخش جواب دیتے ہیں۔ ان گروپس میں تجربہ کار کشتکار اپنے فصلوں کے بارے اپنے عملی تجربات بھی شیر کرتے ہیں۔
سوال نمبر 11 – اگر لاہور کی ورکشاپ کو آڈر کریں تو تقریبا" کتنا خرچہ آئے گا؟
جواب – بیڈ میکر جو صرف پہلی مرتبہ ضرورت ہوتا ہے یا چند برس بعد بیڈز کی مرمت کے کام آتا ہے کا خرچہ تقریبا" 80 ہزار تک بن جاتا ہے جسے آپ استعمال کے بعد اپنے علاقے میں کرایہ پر بھی دے سکتے ہیں اور ملٹی سیڈ ملٹی فنگشن پلانٹر تین لاکھ پچھتر ہزار سے چار لاکھ تک تیار ہوجاتا ہے۔ یہ مشین بھی اپنے زاتی استعمال کے بعد چھوٹے کسانوں کو کرایہ پر دی جاسکتی ہے
سوال نمبر 12 – ڈیرہ اسماعیل خان میں پقنک اصولوں پر کوئی کاشتکاری شروع ہوچکی ہے؟
جواب – ڈیرہ اسماعیل خان کے کئی بڑے کاشتکار خصوصا" میانخل و گنڈہ پور فیملی کے کئی کاشتکار آصف شریف صاحب کے گروپس میں شامل ہوکر ان سے براہِ راست یہ علم سیکھ رہے ہیں اور ابتدا کرتے ہوئے محترم محب اللہ خان قصوریہ نے آصف شریف صاحب کی برس ہابرس کے تجربات کے بعد ڈیزاین کی گئی مشینوں کی خریداری کا آڈر کر دیا ہے اور اپنے فارم جو ڈیرہ دریا خان پل کے قریب واقع ہے پر خیبر پختون خواہ کا پہلا شو کیس پایئدار قدرتی نظامِ کاشتکاری ( پقنک ) سکول قایئم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس پہلے پقنک سکول شو کیس میں علاقہ کے کاشتکاروں کو اس علم کے پھیلانے اور عملی تربیت حاصل کرنے کا موقعہ ملے گا۔ اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو تربیت دے کر سرٹیفکیٹ دیے جایئں گے۔
اس نئی ٹیکنالوجی کی عملی تربیت حاصل کرنے کے بعد کامیاب طلبا کو ملک بھر اور بیرون ملک بطور فارم سپروایئزر، فارم مینیجر، پروڈکشن مینیجر کی ملازمیتں حاصل کرنے کا موقعہ ملے گا۔
سوال نمبر 13 – پقنک مشینوں کو چھوٹا کاشتکار کیسے حاصل کرسکتا ہے؟
جواب – آصف شریف صاحب کے مطابق ملک بھر کے سرمایہ کاروں اور موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو روزگار کے نئے مواقعے ملیں گے۔
1۔ جس طرح زرعی آلات جیسے ٹریکٹر۔ لیزر لیولر وغیرہ پہلے سے کرایہ پر ملتے ہیں یہ مشینں بھی کرایہ پر دی جا سکتی ہیں۔
2- بڑے زمین دار جنکے پاس بڑے رقبے ہیں وہ یہ مشینں خرید کر اپنے آس پاس کے چھوٹے کسانوں کو یہ مشینں مفت یا کرایہ پر دے کر انکی مدد کرسکتے ہیں۔ یا چند لوگ ملکر سرمایہ کاری کرکے یہ نیا کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر 14 – پایئدار قدرتی نظامِ کاشتکاری (پقنک ) میں استعمال ہونے والے مقامی دیسی بیج کہاں سے ملیں گے؟ کیا ہائبرڈ یا جی ایم او بیج استعال ہو سکتے ہیں۔
جواب – جی ہاں ہر قسم کے بیج استعال ہوسکتے ہیں۔ آصف شریف صاحب مشورہ دیتے ہیں کہ ہر علاقے کے کاشتکاروں کو اپنے مقامی اوپن پولینیٹد دیسی بیج تیار کرنے چاہیں۔ اس نئی ٹیکنالوجی پر مرحلہ وار منتقل ہونے والے کاشتکار اپنی زمینوں کا کچھ رقبہ بیجوں کے لیے مختص کریں اور اپنی ہر فصل کے اچھے پودوں کو چن کر بیج خود تیار کریں۔ آصف شریف صاحب کے مطابق یہ قدرتی ارتقائی عمل ہے جسے سے تیسری نسل فصل کے بعد مقامی طور پر تیار بیج نہ صرف 200 فیصد تک زیادہ پیداوردیتے ہیں بلکہ مقامی موسم کے مطابق اپنی قوتِ مدافعت میں اضافہ کرکے حشراتِ الارض کے حملوں اور بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور کسی قسم کی زہریلی ادویات یا کھاد کے محتاج نہیں رہتے۔
آصف شریف صاحب کے مطابق مستقبل میں مقامی دیسی بیجوں کی واپسی سے مقامی کاشکاروں کے لیے آمدن کے نئے زرایع پیدا ہونگے کیونکہ دیسی بیجوں کی طلب پورے برِصغیر میں بہت زیادہ ہے اورکسی کو مقامی بیج نہیں ملتے۔
15 – موجودہ روائیتی طریقہ اور بیجوں سے تیار خوراک اور پقنک طریقہ سے پیدا ہونے والی خوراک میں کیا فرق ہے؟
جواب – مروجہ روائیتی طریقہ سے پیدا ہونے والی خوراک قدرتی زائقہ، خوشبو اور قوتِ مدافعت رکھنے والے مائیکرو اجزا سے محروم ہوچکی ہے جبکہ قدرتی طریقہ سے پیدا شدہ خوراک انسانوں کو نہ صرف اپنی خوشپو اور زائیقے کی وجہ سے راحت پہنچاتی ہے بلکہ قوتِ مدافعت میں اضافہ کرکے بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کی ترقی کی وجہ سے خالص قدرتی خوراک کی طلب روز بروز بہت زیادہ ہوچکی ہے مگر کاشتکار ابھی تک پرانے جال میں پھنسا ہوا ہے۔
قدرتی طریقہ سے پیدا شدہ خوراک کھادوں اور کیمیکل کی مدد سے تیار شدہ خوراک کے مقابلے میں مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ اگرچہ ابھی تک پاکستانَ میں خالص خوراک کی سرٹیفیکشن کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے اور یہ کام اعتماد کی بنیاد پر ترقی کررہا ہے اور کئی لوگ آرگینک کا لیبل لگا کر دھوکہ بھی دے رہے ہیں لیکن کئی پاکستانی و غیر ملی سرمایہ کار سرٹیفیکیشن اداروں کی دفاتر کھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔
سرٹیفیکشن ادارے زمین اور اسمیں پیدا ہونے والی ہر فصل کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں اور سرٹیفیکٹ جاری کرتے ہیں جس کے بعد خوراک دنیا بھر میں برآمد کرنے کی اہل ہوجاتی ہے۔
نوٹ۔۔تمام کاشت کار بھائیوں سے درخواست ہے اس طریقہ کاشت کاری کو اپنے اپنے علاقے میں متعارف کروائیں یہی زراعت اور کسان کا مستقبل ہے
جزاک اللہ
[7/24, 10:16 PM] Abid Hussain Drakht Aur Organic Kheti: قدرتی طریقہءِ کاشتکاری پقنک کے اصول کیسے دریافت ہوئے؟
جیسا کہ ہم پچھلے مضمون میں بیان کر چکے ہیں کہ آصف شریف نے 1972 میں کاشتکاری کا آغاز کیا اور سن 2007 تک وہ ایک ترقی پسند کاشتکار کی طرح بھر پور کھادیں اورزرعی زہریں استعمال کر کے ریکارڈ پیداوار حاصل کرتے رہے۔ لیکن سن 2007 میں آصف شریف کے ایک برازیلی دوست نے انہیں برازیل آنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت آصف شریف کی زندگی میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوئی۔
برازیل میں آصف شریف کا یہ دوست بلبو جونئیر دنیا میں گنے کا سب سے بڑا کاشتکار ہے۔ بلبو جونئیر اڑھائی لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا کاشت کرتا ہے لیکن وہ ایک دانہ بھی کیمیائی کھاد کا نہیں ڈالتا اور نہ ہی کسی قسم کی زرعی زہریں استعمال کرتا ہے۔ وہ اس گنے سے آرگینک چینی پیدا کر کے دنیا کے 60 سے زیادہ ملکوں میں Nativeکے نام سے فروخت کرتا ہے۔
بلبو جونئیر کو آکاس بیل نامی ایک جڑی بوٹی نے پریشان کر رکھا تھا۔ آکاس بیل دراصل ایک پیلے رنگ کی دھاگہ نما جڑی بوٹی ہے جو گنوں کے اوپر چڑھ کر انہیں دھاگوں کی طرح ایک دوسرے سے باندھ دیتی تھی۔ آکاس بیل کی وجہ سے انہیں گنے کی مشینی کٹائی میں بہت مشکل پیش آتی تھی۔
ظاہر ہے بلبو جونئیر سپرے تو کرتے نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی مشین تیار کر لی جائے جس کی مدد سے اس جڑی بوٹی کو کنٹرول کیا جا سکے۔
زرعی مشینیں ڈیزائن کرنا آصف شریف کا مشغلہ ہے اور بلبو، آصف شریف کے اس شوق اور فنی مہارت سے واقف تھا۔ لہذا اس نے آصف شریف سے درخواست کی کہ وہ کوئی ایسی مشین بنانے میں ان کی مدد کرے جس سے آکاس بیل کو کنٹرول کیا جا سکے۔
لہذا بلبو جونئیر کی دعوت پر سن 2007 میں آصف شریف برازیل چلے گئے۔ جہاں وہ 3 ہفتے رہے اور اس دوران انہوں نے ایک مشین ڈیزائن کی جو آج بھی کامیابی سے آکاس بیل کو کنٹرول کر رہی ہے۔
جب یہ منصوبہ ختم ہوا تو آصف شریف نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایمازان کا جنگل دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایمازان دراصل دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے جو کروڑوں سال سے کرہ ارض پر موجود ہے۔ دنیا میں پیدا ہونے والی 60 فی صد آکسیجن اکیلا ایمازان پیدا کرتا ہے اور اسی نسبت سے اس جنگل کو دنیا کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انسانوں سمیت ہر ذی روح کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہے جسے وہ سانس کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔
ایمازان کا جنگل، پاکستان کے کل رقبے سے 7 گنا بڑا ہے جو برازیل سمیت دنیا کے 9 ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔
اسی جنگل کے اندر سے دنیا کا سب سے بڑا دریا بھی گزرتا ہے جسے اسی نسبت سے ایمازان دریا کا نام دیا گیا ہے۔
آصف شریف بتاتے ہیں کہ وہ دریا کے راستے سے، کشتی میں بیٹھ کر ایمازان کے جنگل میں داخل ہوئے۔ بقول آصف شریف جب میں کشتی پر بیٹھا ہوا دریا میں جنگل کے ساتھ ساتھ جارہا تھا تو فطرت کی کرشمہ سازیوں نے مجھ اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ یہ جنگل اس قدر سر سبز و شاداب اور زندہ و جاوید تھا کہ ہر دیکھنے والی آنکھ کو خیرہ کئے جا رہا تھا۔
میں نے سوچا کہ اللہ تعالی نے یہ کیسا نظام بنا رکھا ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال سے یہ جنگل اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ یہاں موجود ہے۔ اس جنگل میں نہ تو کوئی ہل چلاتا ہے۔ نہ یہاں کسی یوریا ڈے اپے پی کی کوئی کمی ہوئی ہے۔ نہ ہی کیڑے مکوڑے اس جنگل کا کچھ بگاڑ سکے ہیں اور نہ ہی اسے کسی بیماری نے تباہ کیا ہے۔ کروڑوں سالوں سے یہ جنگل یہاں موجود ہے اور کسی بھی طرح کی کھادیں یہاں ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑی اور نہ ہی زرعی زہریں سپرے کرنا پڑی ہیں۔ آخرایمازان کے اتنے بڑے جنگل میں نائٹروجن یا فاسفورس کی کمی کیوں نہیں ہوتی۔ اور اسی طرح اس جنگل پر یہ نام نہاد کیڑے مکوڑے اور بیماریاں حملہ کیوں نہیں کرتیں؟
آصف شریف کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ آخر ہم اپنی زراعت میں ایسا کیا کر بیٹھے ہیں کہ ہمیں کھادیں اور زرعی زہریں استعمال کرنے جیسی مصیبتیں پڑی ہوئی ہیں؟
آصف شریف نے رات اسی جنگل میں گزاری۔ وہاں سیاحوں کے رات گزارنے کے لئے چھوٹی چھوٹی محفوظ چھونپڑیاں بنی ہوئی ہیں جہاں شوق رکھنے والے لوگ رات بسر کر سکتے ہیں۔
بقول آصف شریف، میں رات کے پچھلے پہر تک اپنی جھونپڑی میں بیٹھا اس جنگل کے ماحول اور وہاں سے آنے والی آوازوں کو محسوس کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ ہمیں ان باتوں کی نشاندہی کرنی چاہئے جو ہم قدرتی نظام کاشتکاری کے خلاف کر رہے ہیں۔ یعنی دنیا کا سب سے بڑا کاشتکار تو اللہ تعالی کا ذات ہے۔ جو کروڑوں اربوں ایکڑ پر جنگلوں کی صورت میں یا چراگاہوں وغیرہ کی صورت میں ارب ہا سال سے کاشتکاری کر رہا ہے اور بغیر کسی مسئلے کے کر رہا ہے۔ اللہ رب العزت جو کاشتکاری کر رہا ہے وہ ایک خود کار نظام کے تحت ہو رہی ہے۔ قدرت، اپنی کاشتکاری میں توہل چلاتی ہے، نہ کیمیائی کھاد ڈالتی ہے اور نہ ہی کوئی زہر سپرے کرتی ہیں۔ آخر ہم ان ساری مصیبتوں میں کیسے اور کیوں گرفتار ہو گئے۔
بقول آصف شریف، میں یہی باتیں سوچتا سوچتا سو گیا۔ صبح اٹھا تو میں نے جنگل کی سیر کا ارادہ کیا۔
ناشتے کے بعد چند محافظ مجھے جنگل کی چہل قدمی کے لئے لے گئے۔
قدرتی کاشت کاری کا پہلا اصول
جنگل میں چہل قدمی کرتے ہوئے جو پہلی بات آصف شریف پر منکشف ہوئی وہ یہ تھی کہ جہاں پانی ہے وہاں سبزہ نہیں ہے اور جہاں سبزہ ہے وہاں پانی نہیں ہے۔
دراصل ایمازان جنگل کی سطح ڈھلوان نما ہے۔ ڈھلوان کی اونچی سظح پر درخت اور نچلی سظح پر دریا بہتا ہے۔ جنگل میں جب بارش ہوتی ہے، تو جتنا پانی زمین جذب کر سکتی ہے وہ کر لیتی ہے اور باقی پانی ڈھلوان کی اونچی سطح سے بہہ کر نیچی سطح یعنی دریا میں چلا جاتا ہے۔ جنگل میں کہیں بھی آصف شریف کو کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آئی جہاں سبزہ ہو اور وہاں پانی بھی کھڑا ہو۔ ہاں اگر کسی جگہ پر تھوڑا بہت پانی کھڑا تھا تو یقیناََ وہاں سبزہ نہیں تھا۔
آصف شریف نے اپنے اس مشاہدے سے یہ نتیجہ نکالا کہ اللہ تعالی نے اونچی جگہیں بنائیں سبزے پیدا کرنے کے لئے اور نشیبی یعنی گہری جگہیں بنائیں پانی کے لئے۔
اب آپ نیچے دی گئی تصویر دیکھئے!
گندم کی تصویر سلطان احمد بھٹی فارم حافظ آباد کی ہے۔
اوپر دی گئی تصویر میں آپ دائیں جانب ایمازان کا جنگل اور اس جنگل میں سے گزرتا ہوا دریا دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ بائیں جانب گندم کے کھیت کی تصویر دی گئی ہے جو بلند پٹڑیوں پر کاشت کی ہوئی ہے۔ یعنی کھیت کے اندر ہم نے ویسی ہی اونچ نیج پیدا کر نے کی کوشش کی ہے جیسا کہ ایمازان کے جنگل میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قدرتی نظام کاشتکاری کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہم فصل ہمیشہ پٹڑیوں پر کاشت کریں گے اور پٹڑیوں کے ارد گرد کھیلیاں ہوں گی جہاں سے پانی گزرے گا۔ یعنی جہاں سبزہ ہو گا وہاں پانی کھڑا نہیں ہو گا اور جہاں پانی کھڑا ہو گا وہاں سبزہ نہیں ہو گا۔
قدرتی کاشتکاری کا دوسرا اصول
جنگل میں چہل قدمی کرتے ہوئے آصف شریف نے ایک انچ بھی زمین ایسی نہیں دیکھی جو ننگی ہو۔ یعنی ساری کی ساری زمین درختوں کے پتوں، ٹہنیوں اور گھاس پھوس سے ڈھکی ہوئی تھی۔ جب آصف شریف زمین پر قدم رکھتے تو ان کا پاؤں چار پانچ انچ تک زمین میں دھنس جاتا۔ معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پتوں اور گھاس پھوس کی کوئی 6 انچ کی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔
اس دوسرے مشاہدے سے یہ اصول سامنے آیا کہ ہم نے اپنے کھیتوں کی زمینوں کو ننگا نہیں رکھنا۔ بلکہ انہیں کسی نہ کسی طرح فصلوں کی باقیات وغیرہ سے ڈھانک کر رکھنا ہے۔
اگر آپ نیچے دی ہوئی تصویر کو دیکھیں تو اس میں دائیں طرف جنگل کے فرش کی تصویر ہے جہاں پتوں اور فصلوں کی باقیات وغیرہ نے زمین کو ڈھانپ رکھا ہے جبکہ بائیں طرف گندم کی فصل کاشت کی ہوئی ہے جہاں زمین کو چاول کی باقیات نے ڈھانکا ہوا ہے۔ اس کھیت میں دھان کی کٹائی کے بعد نہ تو زمین میں ہل چلایا گیا ہے اور نہ ہی دھان کی باقیات کو جلایا گیا ہے۔ بلکہ کٹائی کے فوراََ بعد بغیر ہل چلائے گندم کاشت کر دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس کھیت میں ایک سال سے ہل نہیں چلایا گیا۔ ہم اپنی زمینوں کو فصلوں کی باقیات وغیرہ سے کیسے ڈھانک سکتے ہیں؟ اس پر آئندہ مضامین میں تفصیلی بات ہو گی۔
قدرتی کاشتکاری کا تیسرا اصول
جنگل میں تیسرا مشاہدہ یہ ہوا کہ زمین کے ساتھ وہاں کسی طرح کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ یعنی نہ تو جنگل میں کوئی ہل چلاتا ہے اور نہ ہی وہاں زمین کو الٹا پلٹا جاتا ہے۔
زمین میں بغیر ہل چلائے بغیر مونگ کی فصل کاشت کی گئی ہے۔ یہ تصویر سلطان احمد بھٹی فارم حافظ آباد کی ہے
لہذا یہاں سے تیسرا اصول اخذ کیا گیا کہ ہم نے اپنے کھیتوں میں ہل نہیں چلانا۔ بلکہ بغیر ہل چلائے ہم نے بیج کاشت کرنے ہیں۔ البتہ جن پٹڑیوں کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں انہیں ہم ایک ہی مر تبہ بنائیں گے۔ اور پھر ان مستقل پٹڑیوں پر بغیرہل چلائے فصلیں کاشت کی جایا کریں گی۔ ہل چلائے بغیر فصلوں کی کاشت کیسے ممکن ہے؟ اسی سلسلے کے اگلے مضامین میں اس پر سیر حاصل بات کی جائے گی۔
قدرتی کاشتکاری کا چوتھا اصول
جنگل میں چوتھی بات یہ دیکھی گئی کہ وہاں ہر طرح کے درخت ایک دوسرے کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ اگر کسی جگہ پر پیپل کا درخت لگا ہوا ہے تو کئی ایکڑ پر پیپل کے ہی درخت لگے ہوئے ہوں جیسا کہ ہمارے ہاں کے کھیتوں میں ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے بر عکس اگر کہیں پیپل کا درخت لگا ہوا ہے تو اس کے دائیں جانب کوئی بوڑھ کا درخت ہے اور بائیں جانب کوئی شیشم کا درخت ہے۔
آصف شریف نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہمیں بھی اس طرح کاشتکاری نہیں کرنی چاہئے کہ اگر ہمارے پاس ایک ایکڑ زمین ہے تو ہم وہاں صرف کپاس ہی لگائیں یا صرف گندم ہی لگائیں بلکہ ہمیں ایک سے زیادہ فصلیں ایک ہی وقت میں کاشت کرنی چاہئیں۔
اس کھیت میں گندم 24 انچ کے بیڈز یا پٹڑیوں پر 3 لائنوں پر لگائی گئی ہے اور پٹڑیوں کی سائیڈ وں پر گنا لگایا لگایا گیا ہے۔ تصویر بشکریہ سلطان احمد بھٹی فارم حافظ آباد
ایک سے زیادہ فصلیں اکٹھی لگانے کو انٹر کراپنگ یا مخلوط کاشت بھی کہتے ہیں۔ لیکن ہم انٹر کراپنگ نہیں بلکہ پرما کلچر کی بات کر رہے ہیں۔ پرما کلچر کیا ہے؟ اس پر آنے والے مضامین میں روشنی ڈالی جائے گی۔
برازیل سے واپس آنے کے بعد آصف شریف نے اپنی زمینوں پر ان چاروں اصولوں کو آزمانے کے لئے تجربات شروع کر دئیے۔
آصف شریف کا کہنا ہے کہ اگر ہم پہلے 3 اصولوں پر ہی عمل کر لیں تو نہ ہمیں کسی طرح کی کھاد ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے، نہ ہی فصل پر حشرات حملہ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی بیماری آتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری پیداوار بھی کم نہیں ہوتی۔
اگلے مضامین میں ہم آپ کو تفصیل سے بتائیں گے کہ ان تینوں اصولوں کے پیچھے آخر کونسی حکمت پوشیدہ ہے۔ اور ان اصولوں کے برخلاف کی جانے والی کاشتکاری نے کس طرح ہمیں تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہمارے پاس کھادیں اور زہریں استعمال کرنے کے علاوہ بظاہر کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔
تحریر
ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت،زرعی یونیورسٹی فیصل آباد
یہ مضمون لکھنے کے لئے محترم آصف شریف کے افکارو تجربات سے خوشہ چینی کی گئی ہے۔
Comments
Post a Comment