سائنس پریکٹیکل اور کرپشن محمد کلیم حیدر
بچوں کو کرپشن سکھانے کا سیزن
محمد کلیم حیدر
میٹرک پریکٹیکلز اور انٹرمیڈیٹ پریکٹیکلز امتحانات
استاد: أپ اپنے بچے کو پریٹیکلز کی تیاری کے لۓ کیوں نہیں بھیج رہے
والد: (ایک ماہ کی فیس بچانے کے لۓ)
اس کی کیا ضرورت ہے سفارش سے یا چاۓ پانی دے کر نمبر لگ جاتے ہیں
_______________________________________
استاد : تمام سٹوڈنٹس نے پریکٹیکل نوٹ بکس خود تیار کرنی ہیں
سٹوڈنٹ: سر میرے بھائی نے کہا ہے خود بنانے کا کوئی فائدہ نہیں بنی بنائی کاپیاں مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
_______________________________________
استاد: تمام بچے ماہانہ فیس کے علاوہ پندرہ پندرہ سو روپے جمع کروائیں میں پریکٹیکلز میں أپ کے پورے نمبر لگوا دوں گا۔
سٹوڈنٹس: جی سر لے ائیں گے نمبر تو پورے لگ جائیں گے ناں؟
_______________________________________
استاد: نئ پریکٹیکل نوٹ بکس بہت مہنگی پڑیں گی أپ مجھے ہزار ہزار روپے دیں میں أپ کو پرانی بنی بنائی کاپیاں لا کر دوں گا۔
سٹوڈنٹس: سر نمبر تو نہیں کٹیں گے ناں
استاد: ممتحن کاپیاں چیک ہی نہیں کرتے تو نمبر کیسے کٹیں گے۔
_______________________________________
لیب اٹینڈنٹ: (امتحانی مرکز کے موجود سٹوڈنس سے) أپ مجھے دو دو سو روپے دیں میں اپ کے مارکس لگوادوں گا أپ کو بوٹیاں بھی فراہم کروں گا۔
سٹوڈنٹس: اچھا سر
لیب اٹینڈنٹ: میں أپ کو أدھا گھنٹہ پہلے پریکٹیکل بتا دوں گا اپ دوہرائی کر لینا
_______________________________________
سکول پرنسپل: (اپنے سائینس ٹیچر سے)
پریکٹیکل دینے والے تمام بچوں کے نام رولنمبر بیچ نمبر سنٹر کا نام ٹائمنگ ۔۔۔۔۔ایک لسٹ بناؤ
امتحانی سنٹر جاکر پچوں کی ہیلپ کرنا
سائنس ٹیچر: اوکے سر
پرنسپل: اج ممتحن کو کو کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھلاؤ سٹیج ڈرامہ دکھاؤ رہائش بھی ہماری طرف سے ہوگی۔ جتنا خرچ أۓ گا میں دوں گا۔
سائنس ٹیچر: اوکے سر
_______________________________________
بیٹا: بابا میرا کل پریکٹیکل ہے
باپ: بیٹا پریشان نہ ہو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں میری پہچان ہے۔ پورے نمبر لگ جائیں گے۔
_______________________________________
افسوس صد افسوس ان والدین اساتزہ اور بڑے بہن بھائیوں کو کون سمجھاۓ أپ بچوں کو بے ایمانی، رشوت دینا ،کامیابی کےشارٹ کٹ، کرپشن سکھا رہے ہیں۔
یہ سب کرتے ہوۓ کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے سٹوڈنس کی مدد کر کے نیکی کا کام کیا ہے۔
تعلیمی پالیسیاں بنانے والوں کو کون بتاے گا ترقی یافتہ ممالک میں تھیوری سے زیادہ پریکٹیکلز کو ترجیح دی جاتی ھے۔
پھر کہتے ہیں ہمارے حکمران ایماندار نہیں ہے۔
اور بھول جاتے ہیں کہ
جیسی عوام ویسے حکمران
یہ بھول جاتے ہیں حکمران عوام سے ہی چنا جاتا ہے۔
حکمران امپورٹ نہیں ہوتا صرف حکومتیں امپورٹ ہوتی ہیں۔
Comments
Post a Comment