سیالکوٹ
copied *سیالکوٹ ایک حقیقت ایک فسانہ* سن 1881 میں سیالکوٹ کے ریلوے اسٹیشن پہ اترنے والی ڈاکٹر ماریا،ہندوستان کو اپنا دیس بنانے آئی تھیں۔ شہر سے باہر ایک خاموش مقام پہ انہوںء نے اپنی ڈسپنسری بنائی اور خلق خدا کی خدمت شروع کر دی۔ ڈسپنسری نے سرجری کا روپ دھارا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک اسپتال بن گیا۔ ایوان صنعت و تجارت پہ اندر کی جانب واقع، مشن اسپتال داکٹر ماریا کا ہی خواب ہے۔ بٹلر کاؤنٹی کی قبر پہ کوئی پھول رکھے یا نا رکھے، مشن ہسپتال سے شفا پانے والے سینکڑوں مریض روزانہ اپنے اپنے خدا سے ماریا کی مغفرت مانگتے ہیں۔ گفتگو کے دوران ’’خ‘‘ کو ’’ح‘‘ بولنے والے سیالکوٹ کے لوگ پنجاب بھر میں اپنے منفرد مزاج کی بدولت مشہور ہیں۔ یہ ان جڑواں نہروں کا اثر ہے جو مرالہ سے نکلتی ہیں اور توام بچوں کی طرح دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ چلتی ہیں یا ایک اور ڈیک نالہ کا اعجاز ہے، شہر کے مزاج میں بہر حال، دو پانی اکٹھے بہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں آباد برصغیر کے باسیوں کی طرح یہ شہر بھی دوج کا شکار ہے۔ آگے بڑھنے کا خواہشمند اور پیچھے رہ جانے کا دلدادہ، ترقی کا معترف اور روائت پہ جان دینے والا۔ یہی وجہ ہ...